بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی شدہ بہنوں کو زکات وفطرہ دینے کا حکم


سوال

کیا فطرانہ اور زکوۃ کی رقم میں اپنی شادی شدہ بہنوں کو دے سکتا ہوں، ایک بہن کا شوہر سرکاری ملازم ہے جب کہ دو بہنوں کے شوہر پرائیویٹ ملازمت کرتے  ہیں ،ان  کی تنخواہ سے بڑی مشکل سے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر بہنیں مستحقِ  زکات ہوں  تو انہیں  زکات دینا  یا فطرانہ دینا جائز  بلکہ زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

زکات کا مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  جس  کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر   یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر  مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو۔

  اور اگر  بہنیں مستحق زکات نہیں ہیں تو پھر ان کو زکات وفطرانہ دینا جائز نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي."

(کتاب الزکات،الباب السابع فی المصارف ،ج:1،ص:189،دارالفکر)

وفيها أيضا:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الزکات،الباب السابع فی المصارف ،ج:1،ص:190،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509101620

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں