بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی سے قبل مردانگی جانچنے کے لئے وقتی نکاح کرنے یا مشت زنی کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

1۔ کسی غیر شادی شدہ شخص کو اگر کوئی ایسی جنسی بیماری لاحق ہو کہ جس کا علاج کرنے کے بعد اس کی صحت و مرض کا علم نہ ہو سکے تاوقتیکہ وہ مباشرت کرکے اس کا جائزہ نہ لے لے تو اس کے لئے کسی سے وقتی نکاح کرنا کیسا ہے؟

2۔ اگر وقتی نکاح کرکے مباشرت کے ذریعے کارکردگی کا اندازہ کرنا جائز نہیں، تو کیا اس مقصد کے لئے وہ کسی عورت کو برہنہ صرف دیکھ سکتا ہے ؟ یا ہاتھ رسی کرسکتا ہے؟

3۔اگر مذکورہ کوئی صورت جائز ہی نہیں تو ایک غیر شادی شدہ ایسا بیمار شخص جو اس بیماری کے ساتھ شادی کے قابل ہی نہیں  ،بیماری ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ حدود شریعت سے تجاوز کیے بنا کیسے لگائے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح کے مقاصد کے حصول اور نوعِ  انسانی کی بقا  کے لیے ضروری ہے کہ  میاں بیوی  کا آپس میں تعلق دائمی ہو، وقتی نہ ہو، جس کی وجہ سے   شریعتِ مطہرہ نے عارضی شادی،   نکاحِ متعہ اور نکاح  مؤقت کو  ہمیشہ کے لیے   ناجائز  و حرام قرار دیا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود  وقتی و عارضی نکاح  کو  بحکم خداوندی تا قیامت حرام قرار   دیاہے، جیساکہ صحیح مسلم میں ہے:

" عن  الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «يا أيها الناس، إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولاتأخذوا مما آتيتموهن شيئاً ".

( کتاب النکاح، باب نكاح المتعة، وبيان أنه أبيح، ثم نسخ، ثم أبيح، ثم نسخ، واستقر تحريمه إلى يوم القيامة، ٢ / ١٠٢٥،  ط: بيروت)

ترجمہ:

" حضرت سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور (اب) اللہ نے اس کو  قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے؛ لہٰذا جس کے پاس متعہ کرنے والیوں میں سے کوئی عورت ہو، وہ اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ مال ان کو دیا ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے۔"

اسی طرح سننِ ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: متعہ ابتدائے اسلام میں تھا، آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کر لیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔ اس کی چیزیں درست کر کے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ  { إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم}" یعنی لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دو ہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر"، نازل ہوئی تو ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: ان دو کے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہو گئیں۔

جامع الترمذی میں ہے:

"عن ابن عباس قال: " إنما كانت المتعة في أول الإسلام، كان الرجل يقدم البلدة ليس له بها معرفة فيتزوج المرأة بقدر ما يرى أنه يقيم فتحفظ له متاعه، وتصلح له شيئه، حتى إذا نزلت الآية: {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} [المؤمنون: ٦] "، قال ابن عباس: «فكل فرج سوى هذين فهو حرام»."

(أبواب النکاح، باب ماجاء في  نکاح المتعة،٣ / ٤٢٢، رقم الحديث: ١١٢٢، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فتح القدير لابن الہمام میں ہے:

"فهذا يحمل على أنه اطلع على أن الأمر إنما كان على هذا الوجه فرجع إليه أو حكاه، وقد حكي عنه أنه إنما أباحها حالة الاضطرار والعنت في الأسفار. أسند الحازمي من طريق الخطابي إلى المنهال عن سعيد بن جبير قال: قلت لابن عباس: لقد سارت بفتياك الركبان وقال فيها الشعراء قال: وما قالوا؟ قلت قالوا:

قد قلت للشيخ لما طال محبسه ... يا صاح هل لك في فتوى ابن عباس

هل لك في رخصة الأطراف آنسة ... تكون مثواك حتى يصدر الناس

فقال: سبحان الله ما بهذا أفتيت وما هي إلا كالميتة والدم ولحم الخنزير لا تحل إلا للمضطر اهـ. ولهذا قال الحازمي: إنه - صلى الله عليه وسلم - لم يكن أباحها لهم وهم في بيوتهم وأوطانهم، وإنما أباحها لهم في أوقات بحسب الضرورات حتى حرمها عليهم في آخر سنيه في حجة الوداع، وكان تحريم تأبيد لا خلاف فيه بين الأئمة وعلماء الأمصار إلا طائفة من الشيعة."

( كتاب النكاح، فصل في بيان المحرمات، ٣ / ٢٥٩، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ حکم کی وجہ سے  فقہاءِ کرام نے  نکاحِ  متعہ اور وقتی و عارضی نکاح کو  باطل قرار دیا ہے، جیساکہ کتب فقہ میں ہے :

" نکاحِ مؤقت  باطل ہے اور اس کی صورت یہ ہےکہ آدمی عورت سے دو گواہوں کی موجودگی میں (کچھ مدت،مثلاً) دس دن کے لیے نکاح کرے،اور اس کی وجہ  یہ ہے کہ معناً یہ متعہ ہی ہے،اور عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے ،اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ طویل مدت ذکر ہو یا قلیل،کیوں کہ مدت کا ذکر کرنا ہی متعہ کی جہت کو متعین کردیتا ہے۔

  ہدایہ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:

"والنكاح المؤقت باطل" مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام وقال زفر هو صحيح لازم لأن النكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة.

ولنا أنه أتى بمعنى المتعة والعبرة في العقود للمعاني ولا فرق بين ما إذا طالت مدة التأقيت أو قصرت لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة وقد وجد".  

(کتاب النکاح،فصل في بيان المحرمات، ١ / ١٩٠، ط: دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان)

 العنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

" ( والنكاح المؤقت باطل مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام ) .

والذي يفهم من عبارة المصنف في الفرق بينهما شيئان : أحدهما وجود لفظ يشارك المتعة في الاشتقاق كما ذكرنا آنفا في نكاح المتعة .

والثاني شهود الشاهدين في النكاح الموقت مع ذكر لفظ التزويج أو النكاح وأن تكون المدة معينة ( وقال زفر هو صحيح لازم ) لأن التوقيت شرط فاسد لكونه مخالفا لمقتضى عقد النكاح ، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة ( ولنا أنه أتى بمعنى المتعة ) بلفظ النكاح لأن معنى المتعة هو الاستمتاع بالمرأة لا لقصد مقاصد النكاح وهو موجود فيما نحن فيه لأنها لا تحصل في مدة قليلة ( والعبرة في العقود للمعاني ) دون الألفاظ؛ ألا ترى أن الكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط مطالبة الأصيل كفالة ."

( كتاب النكاح، فروع في النظر إلى الفرج، ٣ / ٢٤٨ - ٢٥٠، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

1۔ لہذا صورتِ  مسئولہ میں طبی علاج مکمل ہوجانے کے بعد سائل کے لئے کسی متعین مدت کی شرط کے بغیر   نکاح کرنے کی اجازت ہوگی،  البتہ  متعین مدت کی شرط کے ساتھ  نکاح کرنا جائز نہ ہوگا۔

2۔کسی خاتون کو برہنہ دیکھنا، اور مشت زنی کرنا جائز نہیں۔

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:  مشت زنی گناہ ہے

3۔  وقت کی تحدید کے ساتھ نکاح کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں