بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی سے پہلے ’’کلماأکلت النسوارزوجتی طالق‘‘ کہنے کا حکم


سوال

میں شادی شدہ ہوں اوردوبچے بھی ہیں، ایک زمانہ قبل یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا، ایک موقع پراستادصاحب نےنسوارسےمنع کیاتھااورتوبہ کروائی تھی اور ساتھ ساتھ عربی میں مجھے توبہ اورحلف لی تھی، الفاظ مجھے یاد نہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہلوایاتھاکہ ’’کلما أکلت النسوار زوجتي طالق‘‘ اس وقت میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی اورمجھےکچھ صحیح یادنہیں،  میں نےالفاظ پورے ادا کیے بھی تھے کہ نہیں ،اس کےبعدبھی آج تک میں نسوار استعمال کرتا رہا ہوں،  بیچ میں شادی بھی اوربچےںھی ہوگئےہیں،  شرعی حکم کیاہے؟

جواب

طلاق واقع ہونے کے لیے  ضروری ہے کہ  جس کو طلاق دی جارہی ہو وہ  عورت  نکاح میں موجود ہو، یا اگر وہ نکاح میں موجود نہ ہو تو   ملک یا سببِ ملک  کی طرف نسبت کرکے طلاق دی گئی ہو،  مثلاً یوں کہا گیا ہو اگر میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق، یا جس عورت سے بھی میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق  وغیرہ  وغیرہ۔ لیکن  اگر وہ عورت نکاح میں موجود نہ ہو اور فوری طلاق دی گئی  یا ملک یا سبب  ملک کی طرف نسبت کیے بغیر معلق طلاق دی تو ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں جس وقت آپ نے یہ الفاظ ’’کلما أکلت النسوار زوجتي طالق‘‘کہا تھا اس وقت اگر آپ شادی شدہ نہیں تھے تو آپ کا یہ کہنا لغو ہوگیا تھا،  کیوں کہ اس جملے میں نکاح کی طرف نسبت کرکے ہونے والے بیوی کی طلاق کا ذکر نہیں ہے، اور شادی کے بعد نسوار کھانے سے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ نسوار  چوں کہ تمباکو اور چونا وغیرہ سے بنتی ہے؛  لہٰذا اس کا استعمال تمباکو  کی طرح فی نفسہٖ مباح اور جائز تو ہے، لیکن نسوار سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے، اور  بدبو سے (خاص کر مسجد میں)  نمازیوں اور فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے؛ اس لیے نماز سے پہلے منہ اچھی طرح صاف کرنا چاہیے، اور  عام حالت میں بھی اس کا ترک کرنا ہی بہتر ہے۔

اللباب میں ہے:

"وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح، مثل أن يقول: إن تزوجتك فأنت طالقٌ، أو كل امرأة أتزوجها فهي طالقٌ، وإن أضافه إلى شرطٍ وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالقٌ.

 (وإذا أضافه) أي الطلاق (إلى) وجود (شرط وقع عقيب) وجود (الشرط) وذلك (مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق) ، وهذا بالاتفاق، لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط، ويصير عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت".

(اللباب في شرح الكتاب ،کتاب الطلاق،(3/ 46)، ط: المكتبة العلمية، بيروت – لبنان)

حجة الله البالغة (2/ 214):

"وقال صلى الله عليه وسلم: " لا طلاق فيما لا يملك ". وقال عليه السلام: " لا طلاق قبل النكاح ". أقول: الظاهر أنه يعم الطلاق المنجر والمعلق بنكاح وغيره، والسبب في ذلك أن الطلاق إنما يجوز في للمصلحة، والمصلحة لا تتمثل عنده قبل أن يملكها، ويرى منها سيرتها، فكان طلاقها قبل ذلك بمنزلة نية المسافر الإقامة في المفازة أو الغازى في دار الحرب مما تكذبه دلائل الحال". 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع، فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد".

 (ج6، ص: 459، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وسئل بعض الفقهاء عن أكل الطين البخاري ونحوه قال: لا بأس بذلك ما لم يضرّ، وكراهية أكله لا للحرمة بل لتهييج الداء".  (ج5، ص: 341، ط: ماجديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں