بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی سادگی سے کرنی چاہیے


سوال

میرا رشتہ طے ہو چکا ہے،  شادی کرنے کے لیے اسباب نہیں بن رہے ہیں،  کچھ پیسے تھے سوچا تھا کہ کچھ اور جوڑ کر شادی کر لیں گے،  مگر وہ پیسے چوری ہوگئے،  اب پیسے اپنے پاس تو نہیں ہیں،  یہی سوچا کہ گھر بیچ دیں،  پیسے آجائیں گے،  کچھ پیسوں سے  شادی کر لیں گے  اور باقی سے کوئی کاروبار وغیرہ کر لیں گے،  مگر کوئی حساب نہیں لگ رہا، بہت پریشانی ہے،  لڑکی والے ٹائم مانگ رہے ہیں کہ تاریخ دو شادی کی اور ہمارے پاس شادی کے پیسے نہیں ہیں۔

جواب

شریعتِ مطہرہ نے شادی کے مرحلے کو سادگی سے اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے سرانجام دینے  کا حکم دیا ہے اور قرآن کریم میں اسراف کرنے سے ممانعت آئی ہے اور بے جا فضول خرچی کرنے والوں کو شیاطین کا بھائی قرار دیا ہے اور آج کل جو ہمارے معاشرے میں طرح طرح کی فضول رسوم و رواجات پائے جاتے ہیں، جن پر لاکھوں روپے فضول خرچ کر دیے جاتے ہیں، یہ کسی طرح بھی درست  نہیں ہیں اور انہی فضول رسوم و رواجات کی وجہ سے کتنے غریب ماں باپ   اپنے بچوں اور بچیوں کی شادیاں کرنے سے قاصر ہیں اور انہی کاموں کے پورا کرنے کے لیے قرضے لیتے ہیں اور اسی کی ادائیگی میں پوری پوری زندگیاں گزرجاتی ہیں، جو کہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے، ان تمام رسوم ورواجات کو ترک کرنا لازم اور ضروری ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"سب سے بابرکت نکاح وہ ہے، جس میں خرچہ سب سے کم ہو۔"

نکاح کا جو ضروری خرچہ شریعت نے مقرر کیا ہے، وہ صرف مہر کا خرچہ ہے اور مہر کو بھی بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر مقرر نہ کریں جو ادا کرنا آسان نہ ہو ، تا کہ بعد میں پریشانی کا سبب نہ بنے، باقی اگر ولیمہ کی استطاعت ہو، تو مناسب ولیمہ کرنا سنت ہے۔

لہٰذا آپ کو چاہیے  کہ بغیر کسی اسراف کے سادگی کے ساتھ نکاح کرلیں اور صرف اس وجہ سے کہ  شادی کرنے کے لیے بہت سارے پیسے جمع کرنے ہیں اور ان کا انتظام کرنا ہے، شادی میں تاخیر نہ کریں اور اگر استطاعت ہو، تو مناسب طور پر مسنون ولیمہ کرلیں۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ."[الأعراف:31]

" إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ."[الإسراء:27]

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن ‌أعظم ‌النكاح ‌بركة» ) أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى. (رواهما البيهقي في شعب الإيمان)."

(كتاب النكاح، ج:5، ص:2049، ط:دار الفكر)

سنن ابن ماجه میں ہے:

"قال عمر بن الخطاب: " ‌لا ‌تغالوا صداق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، أو تقوى عند الله، كان أولاكم وأحقكم بها محمد صلى الله عليه وسلم، ما أصدق امرأة من نسائه، ولا أصدقت امرأة من بناته أكثر من اثنتي عشرة أوقية، وإن الرجل ليثقل صدقة امرأته حتى يكون لها عداوة في نفسه، ويقول: قد كلفت إليك علق القربة، أو عرق القربة " وكنت رجلا عربيا مولدا، ما أدري ما علق القربة، أو عرق القربة."

(كتاب النكاح، ج:1، ص:607، ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں