بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی میں بچیوں کو ملنے والے زیور کا مالک کون ہوتا ہے؟


سوال

شادی میں بچیوں کو جو زیور ملتا ہے، اس کا مالک کون ہوتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شادی میں دلہن کو جو زیور دیا جاتا ہے اس کی چار صورتیں ہیں:

1۔ دلہن کو جو زیور جہیز میں دیا جاتا ہے، دلہن اس کی مالک ہوتی ہے۔

2۔ دلہن کے رشتہ دار اسے جو زیور تحفہ کے طور پر دیتے ہیں، دلہن اس کی بھی مالک ہوتی ہے۔

3۔ دلہن کو جو زیور لڑکے کے رشتہ دار تحفہ کے طور پر دیتے ہیں، دلہن اس کی بھی مالک ہوتی ہے۔

4۔ دلہن کو جو زیور بری میں دیا جاتا ہے، اگر لڑکے والوں نے وہ زیورات دیتے وقت دلہن کو مالک بنانے کی صراحت کی تھی تو وہ زیورات بھی دلہن کی ملکیت میں ہوں گے، اور اگر لڑکے والوں نے ان زیورات کو صرف بطورِ استعمال (عاریت) کے دیا تھا تو دلہن اس کی مالک نہیں ہو گی، البتہ اگر لڑکے والوں نے زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر عرف کا اعتبار ہوگا، یعنی اگر لڑکے والوں کا عرف دلہن کو زیور بطورِ ملک دینے کا ہو تو وہ زیور لڑکی کی ملکیت شمار ہوگا اور اگر لڑکے والوں کا عرف دلہن کو زیور بطورِ عاریت دینے کا ہو تو پھر وہ زیور لڑکی کی ملکیت نہیں ہوگا۔ اور اگر لڑکے والوں کے ہاں کوئی عرف نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور تحفہ سمجھا جائے گا اور لڑکی کی ملکیت ہوگا۔

فتاویٰ علامگیریہ میں ہے:

"وإذا ‌بعث ‌الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل السادس عشر في جهاز البنات، ج: 1، ص: 327، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير ‌صبيحة ‌ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ج: 3، ص: 153، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100457

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں