1:شادی بیاہ نکاح کے وقت لڑکی کو گفٹ کے طور پر سونا دیا جاتا ہے، سب کے سامنے لڑکی کو مالک بنادیا جائے تو اس سونے کی ملکیت لڑکی کوحاصل ہوگی یا ساس کو حاصل ہوگی؟
2: شادی میں لڑکی کو سلامی کے طور پر جو لفافے وغیرہ دیے جاتے ہیں ،وہ لڑکی کے ہوں گے یا ساس کے ہوں گے؟
3:لڑکی کے جہیز کی چیزیں اس کی غیرموجودگی میں اس لڑکی یا اس کے شوہر کی اجازت کے بغیر دوسروں کو دے سکتے ہیں یا نہیں ؟
وضاحت: لڑکی کو سونا لڑکے والوں کی طرف سے دیا گیا،اور اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ بطورِ گفٹ دیا جارہا ہے۔
1-2:صورتِ مسئولہ میں شادی کے موقع پرلڑکی کو لڑکے والوں کی طرف سے بطورِگفٹ(ہدیہ) جو سونا دیا گیا ہے ، وہ لڑکی کی ملکیت ہے،کیوں کہ لڑکی کو سونا استعمال کرنے کے لیے نہیں ہدیہ اور تحفہ کے طور پر دیا گیا ہےاور لڑکی کو اس کا مالک بنایا گیا ہے ۔ اسی طرح شادی کے موقع پر سلامی کے نام سے جو پیسے بطورِ ہدیہ لڑکی کو دیے گئے ہیں،وہ بھی لڑکی کی ملکیت ہے،سونا اور پیسےدونوں چیزوں ساس کی کسی قسم کی ملکیت نہیں ہے،اور نہ ہی لڑکی سے واپسی کا مطالبہ کے کسی کو حق حاصل ہے۔
3:واضح رہے کہ جہیز میں جو کچھ بیوی لے کر آتی ہے وہ بیوی کی ہی ملکیت ہوتا ہے اور جو سامان شوہر لاتا ہے، وہ شوہر کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ جو چیزیں بطورِ تحفہ میاں بیوی یا ان دونوں کے رشتہ دار دیتے ہیں ان پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے جس کو تحفہ دیا گیا ہو،بہرصورت جہیز کے سامان کے مالک میاں بیوی ہوتے ہیں ،لہذا صورتِ مسئولہ میں بیوی اور شوہر کی غیر موجودگی میں ان کے جہیز کا سامان ان کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها.
قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا.
(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى)."
(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:135 تا 158، ط:ايچ ايم سعيد)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها.
(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."
(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، ج:2، ص:482، ط:دار الجيل)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".
(كتاب النكاح،الباب الثاني، الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج:1، ص:327، ط: دارالفكر)
العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے :
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(كتاب المداينات،ج:2،ص:226،ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101661
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن