بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے نوافل مسجد میں ادا کرنا، ایسے موقع پر کیمرہ اور باجوں کا استعمال کرنا


سوال

ہمارے ہاں یہ رسم رائج ہے کہ دولہا شادی والے دن بارات کی روانگی سے قبل مسجد میں نفل نماز پڑھنے جاتا ہے، ساتھ  باراتی کیمرہ مین اور بینڈ باجے والے بھی ساتھ جاتے ہیں، اس نفل نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا یہ نفل نماز گھر میں پڑھی جاسکتی ہے یا اس کے لیے کوئی خاص وقت مخصوص ہوتا ہے؟

جواب

شبِ زفاف میں میاں بیوی کا ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھنا مستحب ہے اور یہ نماز نفل ہے، اور اس کا ثبوت احادیث  سے  ملتا ہے، اور یہ خیر و برکت اور میاں بیوی میں باہم الفت ومحبت کا ذریعہ ہے، جیساکہ مجمع الزوائد، المعجم للطبرانی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں مروی ہے کہ  ’’ایک شخص عبد اللہ  بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا او رکہا کہ میں نے ایک کنواری لڑکی سے  نکاح کیا ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے نا پسند نہ کرنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الفت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اور بغض شیطان کی جانب سے ہوتا ہے، تاکہ اللہ تعالی نے جو  چیز تیرے  لیے حلال کی ہے وہ تیرے لیے ناپسندیدہ ہوجائے ،  جب تو (شبِ زفاف میں بیوی کے پاس ) داخل ہو تو اس کو حکم کر  کہ وہ تیرے پیچھے دورکعت نماز پڑھے، پھر اس کے بعد اللہ سےیہ دعا مانگ:

’’ اللهُمَّ بَارِكْ لِي فِي أَهْلِي، وَبَارِكْ لَهُمْ فِيَّ، اللهُمَّ ارْزُقْنِي مِنْهُمْ وَارْزُقْهُمْ مِنِّي، اللهُمَّ اجْمَعَ بَيْنَنَا مَا جَمَعْتَ إِلَى خَيْرٍ، وَفَرِّقْ بَيْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَى خَيْرٍ.‘‘

اس نفل نماز کے لیے کوئی مخصوص طریقہ ثابت نہیں ، بلکہ عام نوافل کی طرح یہ نماز بھی ادا کی جاسکتی ہے۔

اور اگر کوئی دولہا انفرادی طور پر اپنی مرضی سے نفل نماز پڑھنے مسجد جاتا ہے اور مکروہ وقت نہ ہوتو وہ مسجد میں بھی نفل نماز بطور صلوۃ الحاجۃ کے ادا کرسکتاہے۔

لیکن نفل نماز پڑھنے  کے حوالے سے جو رسم آپ نے ذکر کی ہے اس میں کئی اعتبار سے قباحتیں موجود ہیں، ایک یہ کہ دولہا لوگوں کے مجمع میں نوافل کی ادائیگی کے لیے جاتاہے  جب کہ شریعت میں  مقررہ عبادات کے علاوہ عبادت کی ادائیگی میں یوں تشہیر کی اجازت نہیں، اسی طرح نفل عمل کا اس درجے التزام کہ وہ رسم بن جائے یا اسے ضروری سمجھا جانے لگے یہ بھی شرعًا درست نہیں ہے۔ نیز شادی کے موقع پر کیمرہ وغیرہ کے ذریعہ تصاویر یا ویڈیوز بنانا یا بینڈ باجوں کا انتظام کرنا حرام ہے، اور عبادت کے موقع پر ایسے کام کرنا اس جرم کو مزید بڑھادیتے ہیں؛ لہذا اس رسم کو ترک کرنا لازم ہے۔ اس کے بجائے جو طریقہ اوپر تفصیلاً لکھا گیا ہے،  اسے اختیار کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں