بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے لیے خریدے گئے زیورات کی زکات کا حکم


سوال

دو ماہ بعد میری شادی ہے، میرے والد صاحب نے میری ہونے والی بیوی کےلیے زیورات بناۓ ہیں جو کہ اب تک مجھے ملے نہیں ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ ان زیورات کی زکات کس کے ذمے واجب ہوگی؟ میرے ذمے،  میرے والد صاحب کے ذمے یا میری بیوی کے ذمے؟

جواب

 صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ زیورات جب تک سائل کے والد صاحب کے پاس ہیں تو اس وقت تک ان زیورات کی ملکیت والد صاحب ہی کی ہوگی، اور اس کی زکات بھی انہی پر واجب ہوگی بشرطیکہ زیورات تنہا یا دیگر اموالِ زکات کے ساتھ ملا کر نصاب کے برابر ہوں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

 سونا ساڑھے سات تولہ  اور اگر صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ ہو، اور اگر سونے کے ساتھ  بنیادی ضرورت سے زائد کچھ نقدی، چاندی  یا مالِ تجارت بھی ہو اس  مخلوط مال کی مالیت    ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو،زکوٰۃ ادا کرنے والے کی مکمل ملکیت میں  ہو،اور  اگر  اس شخص کے ذمے قرض  واجب ہو تو  اس کو منہا کرنے کے بعد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زیادہ  رقم باقی ہو ، اور   اپنے ضروری اخراجات سے زائد رقم ہو، اس پر ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہو،اور اس مال میں کسی دوسرے کا حق نہ ہو۔

البتہ اگر والد صاحب زکات کا سال مکمل ہونے سے پہلے وہ زیورات سائل یا اس کی بیوی کو دے دیتے ہیں تو پھر ان زیورات کی زکات سائل یا اس کی بیوی پر  گزشتہ تفصیل کے مطابق واجب ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة. (قوله: وهو في ملكه) أي والحال أن نصاب المال في ملكه التام."

(كتاب الزكاة،ص:267، ج:ط:دارالفكر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

" وأما شروط وجوبها:فمنهاالحرية، ومنها الإسلام،ومنها العقل والبلوغ،ومنها كون المال نصابا،ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد،ومنها فراغ المال عن حاجته الأصلية، ومنها الفراغ عن الدين،ومنها كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه،ومنها حولان الحول على المال...."

(كتاب الزكاة،ج:1، ص:171-175،ط:دار الفكر)

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:178، ط:دار الفكر،بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں