بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے کچھ سالوں بعد شوہر عنین ہوجائے تو شرعاً میاں بیوی کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

میں اپنے خاندان کابڑا ہوں،میں نے دس سال پہلے اپنے ایک دورکے رشتہ دار کی شادی کروائی تھی، اپنی طرف سے تو میں نے ٹھیک کیا تھامگر مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ شادی غلط ثابت ہوگی ، ہوا یوں کہ شادی کی پہلی رات ہی لڑکا ناکام ہوگیا جس کاپتہ اس نے کبھی چلنے نہیں دیا،بعد میں وہ علاج کراتا رہا تو تھوڑا بہت ٹھیک ہوگیا مگر مکمل ٹھیک نہ ہوسکا،بہت مشکل سے بیس تیس فیصد ٹھیک  ہوااورگولیاں وغیرہ کھاکر کام چلاتارہا، اس دوران بڑی مشکل سے اس کے دوبچے  ہوئے ، ایک بیٹا جس کی عمر پانچ سال اورایک بیٹی جس کی عمر دس سال ہے ،تین چارسال تک وہ گولیاں استعمال کرتارہا مگرپھر گولیوں نے بھی کام کرنا چھوڑدیا، اوراب  یہ حال ہے کہ چھ سال سے وہ اپنی بیوی کے قریب نہیں گیا، بہت علاج کے بعد بھی وہ ناکام ہے،عورت نے اس دوران کسی مرد سے ناجائز تعلقات بھی قائم کرلیےتھے، جس کے بعد ہمیں پتہ چلا اوربات بگڑ گئی،  البتہ اب  وہ ناجائز تعلقات نہیں ہیں،عورت الگ ہونا چاہتی ہے اور مرد سے بچوں  کا مطالبہ کرتی  ہے اور مرد بچوں کو اپنے پاس رکھناچاہتا ہے ،وہ عورت کو بچے دینا نہیں چاہتا ، عورت نے ایک بار زہر بھی کھالیا تھا ، مشکل سے جان بچی ہے ،بچوں کی وجہ سے  عورت صبرکرکےیا جبرکرکے بیٹھ گئی ہے ۔اب اس تمامتر صورت حال  میں عورت کیا کرے؟  عورت کے لیےشرعاً کیا حکم ہے ؟اور مرد کے لیے کیاحکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگرشوہرواقعۃً چھ سال سے مردانہ کمزوری کی وجہ سے بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہیں کر سکا،علاج کے باوجود بھی حقوق ِزوجیت ادا کرنے پر قادر نہیں، تو بیوی  اگراس حالت میں صبرکرسکتی ہواور پاک دامنی کے ساتھ اپنے  شوہر کے ساتھ رہناممکن ہو تو ساتھ رہے،اورشوہرکوبھی چاہیے کہ کسی ماہر طبیب سے اپناعلاج جاری رکھے۔

اوراگربیوی کےلیے پاک دامنی کےساتھ رہنامشکل ہواورگناہ میں مبتلا ہونے کاخدشہ ہوتواس صورت میں بیوی  کوشوہرسے جدائی کااختیار حاصل ہے،اورجدائی کى صورت یہ ہے کہ شوہر سے طلاق  كامطالبہ کرے، شوہرکی بھی شرعی واخلاقی ذمہ داری ہوگی کہ وہ بیوی کی پریشانی کااحساس کرے اورمعاملہ لٹکاکر رکھنے کے بجائےباعزت طریقہ پرطلاق دے کرآزادکردے اورحق مہربھی اداکرے، جب وہ طلاق دےدے توبیوی عدّت(پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگرحمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) کےبعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، اوراگروہ طلاق دینےپرآمادہ نہ ہوتو مہر معاف کرنے کے بدلہ میں خلع لینے کی گنجائش ہے،تاہم اس صورت میں شوہرکےلیےمہرمعاف کروانامکروہ ہوگا۔

  باقی میاں بیوی کے درمیان تفریق ہوجانے کی صورت میں بچہ کی عمر سات سال ہونے تک اوربچی کی عمر نو سال ہونے تک شرعاً ماں کو پرورش کا حق    ہوتا ہے،خرچہ باپ کے ذمہ لازم ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ بچے کی عمرابھی پانچ سال ہے تو  اس کی عمر سات سال ہونے تک ماں کو  پرورش   کا حق ہے،سات سال کا ہوجائےتو والد کولینے کاحق حاصل ہوگا، اوربچی کی عمر چوں کہ دس سال ہے اس لیے والد اس کو لینے کا حق دار ہوگاتاکہ اس کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرسکے، تاہم بچے والدین میں سے جس کے پاس بھی ہوں دوسرےکوبچوں سے ملنے کا حق حاصل ہوگا۔

فتح القديرمیں ہے:

"وإن طلقها علی مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال".

(فتح القدیر،کتاب الطلاق، باب الخلع،ج:۴ ،ص:۲۱۸، ط:دار الفکر)

الدر مع الردمیں ہے:

"(فلو جُبّ بعد وصوله إليها) مرّةً (أو صار عنيناً بعده) أي الوصول (لا) يُفرّق ‌لحصول ‌حقّها بالوطء مرةً....(قوله: ‌لحصول ‌حقّها بالوطء مرةً) وما زاد عليها فهو مستحق ديانةً لا قضاءً بحر عن جامع قاضي خان، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتاً مع القدرة على الوطء ط".

(الدر مع الرد،کتاب الطلاق ،باب العنین،ج:3،ص:495،ط:سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحقّ به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقُدّر بسبع وبه يفتى لأنّه الغالب .... (والأمّ والجدّة) لأم، أو لأب (أحقّ بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثاً. وأقول: ينبغي أن يُحكم سنّها ويُعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوّج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحقّ بها حتى تشتهى) وقُدّر بتسع وبه يفتى،وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقاً زيلعي" .

(الدر المختار،کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،ج:۳،ص:۵۶۶۔۵۶۷،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الولوالجية: الإبن إذا بلغ يتخيّر بين الأبوين" .

(البحر الرائق، کتاب الطلاق ،باب الحضانۃ،ج:۴،ص:۱۸۶،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں