بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے بعد بیٹی کا حصہ وراثت ختم نہیں ہوتا


سوال

میں جب تقریبا پانچ  سال کی تھی اس وقت میرے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی،اس کے بعد سے میں اپنے نانا نانی کے گھر رہ رہی تھی۔پھر میری شادی ہوگئی تھی،اس کے بعد میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور اب میں نانا نانی کے گھر رہ رہی ہوں۔

 میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے،ورثاء میں ایک بیٹی،تین بہنیں اور دوبھائی حیات ہیں،والد کے والدین پہلے ہی وفات پاچکے ہیں۔

والد کا ایک گھر تھا جو انہیں دادا کے ترکہ سے حاصل ہوا تھا،میرے والد کے چونکہ دونوں ہاتھ جل چکے تھے اس لئے میرے تایا نے والد کی اجازت سے ان کے گھر کے اوپر ان کے لئے ایک فلور تعمیر کرایا تاکہ کرایہ سے ان کا خرچہ چلے،جس پر ہماری پھوپھی کا کہنا ہے کہ چونکہ تعمیر تایا نے کرائی تھی اس لیے یہ گھر ان کا ہے،(جبکہ زمین اور گھر والد کا تھا،اور تایا کسی اور جگہ رہتے تھے)

پھوپھی کا کہنا ہے کہ ہم نے معلوم کرایا ہے کہ شادی کے بعد تمہارا حصہ نہیں ہے ، کیا میرا میرے والد کے ترکہ میں حصہ بنتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی  طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو  اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تواسے باقی مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو14 حصوں میں تقسیم کرکے بیٹی کو 7حصے،ہر ایک زندہ بھائی کو 2حصے اور ہرایک زندہ بہن کو ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے۔

میت14/2

بیٹیبھائیبھائیبہنبہنبہن
11
722111

فیصد کے اعتبار سے بیٹی کو 50فیصد،ہر ایک زندہ بھائی کو 14.28فیصد اور ہر ایک زندہ بہن کو 7.14فیصد حصہ ملے گا۔

سائلہ کے تایا نے اپنے بھائی (یعنی سائلہ کے والد) کے گھر پر اس کی اجازت سے اُس کے لیے ایک بالائی منزل تعمیر کی ،تو یہ بالائی منزل سمیت مکمل گھر   سائلہ کے والد کاہوا ،اب ان  کے تمام ورثا میں مذکورہ بالا حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا، بالائی منزل  پر رقم خرچ کرنے سے بالائی منزل یا  گھر تایا کی ملکیت شمار نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ تنہا بیٹی کو جبکہ اس کےوالد کی دیگر اولاد نہ ہوترکہ کا آدھا حصہ ملتا ہے،چاہے وہ بیٹی اس کی پرورش میں ہو یا نہ ہو،شادی شدہ ہو یا غیر شادی ،بہر صورت بیٹی کو اس کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے،لہذاصورت مسئولہ میں سائلہ کو اپنے والد کے ترکہ سے نسبی اولاد ہونے کی حیثیت سے  آدھا ترکہ ملے گا،پھوپھی کا سائلہ کو اس کے والد کے ترکہ سے محروم رکھنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة ،ج۱،ص۲۵۴، ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث،ج۱،ص۲۶۶،  ط: قدیمی)

ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

" (ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر.(قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير."

 (کتاب الغصب،ج۶،ص۱۹۴،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت."

(کتاب الفرائض،ج۶،ص۴۴۸،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں