بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقعے پر گاناگانے اور لڑکی کو مہندی لگانے کاحکم


سوال

 کیا ہم اپنی دوست کی بیٹی کی خوشی میں گھر میں ( مرد حضرات)  نہ ہوں تو شادی کے گانے گا سکتے ہیں؟  اور بیٹی کو مٹھائی اور مہندی یا ابٹن لگا سکتے ہیں؟ ہمارا دین اس میں ہماری کیا راہ نمائی کرتا ہے؟   

جواب

واضح رہے کہ موسیقی کے آلات اور ساز کے ساتھ گانا گانا حرام ہے، اور  موسیقی کے آلات  کے بغیر ایسے اشعار پڑھنا کہ جو حمدونعت یاحکمت ودانائی کی باتوں پر مشتمل ہوں جائز ہے، چاہے مرد پڑھے یاعورت، اگر عورتوں کا مجمع ہو تو عورت کے لیے ترنم کےساتھ اتنی  آوازسے پڑھناکہ اس کی آواز عورتوں کے مجمع سے باہر نہ جائے یہ بھی جائز ہے، البتہ فساق کے عشقیہ اشعار کہ جن سے نفسانی خواہشات ابھرتی ہیں  یاگناہ کی طرف رغبت ہوتی ہے ایسے اشعار کا بغیر میوزک کے پڑھنا بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں شادی کے موقع پر بغیر موسیقی کے آلات کے حکمت و دانائی کے اشعار عورتوں کے مجمع میں عورتوں کے لیے اتنی آواز سے پڑھنا جائز ہے کہ عورت کی آواز عورتوں کے مجمع سے باہر نہ جائے، نیز مروجہ عشقیہ گیت کا گانا جائز نہیں ہے۔

باقی   شرعی حدود میں رہتے ہوئے  لڑکی کو مہندی لگانے  اور زیب  و  زینت کرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک امر مستحسن ہے، اسی طرح لڑکی کے گھر والوں کے لیے  بھی اس خوشی کے موقع پر مہندی لگانے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن  اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ کے لباس پہن کر ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی ہے،  مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی  جاہلیت کی اور ہندو قوم  کی رسم  ہے،    نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحتًا ممانعت وارد ہے ،اس لیے مسلمانوں کے لیے اس رسم کو ترک کردینا ضروری ہے۔ 

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: أومت امرأة من وراء ستر بيدها، كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده، فقال: «ما أدري أيد رجل، أم يد امرأة؟» قالت: بل امرأة، قال: «لو كنت امرأة ‌لغيرت ‌أظفارك» يعني بالحناء."

(كتاب الترجل، باب في الخضاب للنساء، ج:4، ص:77، الرقم:4166، ط: المكتبة العصرية)

الدرالمختار مع  ردالمحتار میں ہے:

"أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة...وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية.

قوله تكره) أي تكره قراءتها فكيف التغني بها. قال في التتارخانية: قراءة الأشعار إن لم يكن فيها ذكر الفسق والغلام ونحوه لا تكره.

وفي الظهيرية: قيل معنى الكراهة في الشعر أن يشغل الإنسان عن الذكر والقراءة وإلا فلا بأس به...وقال في تبيين المحارم: واعلم أن ما كان حراما من الشعر ما فيه فحش أو هجو مسلم أو كذب على الله تعالى أو رسوله - صلى الله عليه وسلم - أو على الصحابة أو تزكية النفس أو الكذب أو التفاخر المذموم، أو القدح في الأنساب، وكذا ما فيه وصف أمرد أو امرأة بعينها إذا كانا حيين، فإنه لا يجوز وصف امرأة معينة حية ولا وصف أمرد معين حي حسن الوجه بين يدي الرجال ولا في نفسه."

(كتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:350 ط:سعيد)

المحیط البرھانی میں ہے:

"لا بأس للإنسان أن يتغنى إذا كان يسمع ويؤنس نفسه، وإنما يكره إذا كان يسمع ويؤنس غيره، ومن الناس من يقول: لا بأس به في الأعراس والوليمة، ألا ترى أنه لا بأس بضرب الدفوف في الأعراس والوليمة، وإن كان ذلك نوع لهو وإنما لم يكن به بأس؛ لأن فيه إظهار النكاح وإعلانه."

(كتاب الاستحسان، الفصل الثامن عشر في الغناء واللهو، ج:5، ص:369، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں