بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر پیسوں کے لین دین / نیوتہ کی رسم کا حکم


سوال

شادی کے موقع پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مدد کرتے ہیں،  کچھ لوگ اسے سود کہتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟  یعنی میں نے کسی کی شادی پر ۱۰۰۰روپے دیے تھے۔ جب وہ میرے شادی پر آیا تو اس نے ۱۵۰۰روپے دیے۔ جب کہ نہ میں نے  مانگے ہیں۔ اور یہ طریقہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے۔

جواب

واضح رہے ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے کے لیے دیا جاتاہے؛ تاکہ اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہو،   ہدیہ اس نیت سے دینا کہ مجھے وہ اس کا بدلہ میں ہدیہ دے گا ، یہ ہدیہ نہیں ہے۔

اسی طرح  ہدیہ دینے پر کسی کو مجبور کرنا بھی  جائز نہیں  ہے،  حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی  خوش دلی  کے لینا حلال نہیں ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، باب الغصب والعاریۃ، رقم الحدیث:2946، ج:2، ص:882، ط: المکتب الاسلامی)

شادی کے موقع پر ہر خاندان اور علاقہ کا عرف مختلف ہوتا ہے، اگر کسی خاندان کا عرف یہ ہے کہ وہ شادی کے موقع پر لفافہ ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دیتے ہوں، اس کو لکھتے نہ ہوں اور بعد میں اتنی ہی رقم ان کی شادی میں دینے کی نیت نہ ہو تو  یہ  ہدیہ ہے، اس کا لین دین جائز ہے، شرعاً کچھ حرج نہیں۔

اور اگر ایک دوسرے کو لفافوں کا دینا عوض اور بدل کے طور پر ہوتا ہو کہ جتنے فلاں نے دیے ہیں ان کی شادی میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گا، اور اسے نوٹ کیا جاتاہو تو یہ ”نیوتہ“  کی رسم کہلاتی ہے ، اور شرعًا یہ سودی قرض کے زمرے میں آجاتی  ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے  ہیں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ قرض ہے، اور اسی قدر واپسی لازم ہے۔

قرآنِ  کریم  سے بھی  اس بری رسم کے ناجائز ہونے کا اشارہ ملتا ہے،  جیساکہ  سورہ روم میں ہے:

" اور جو چیز تم اس غرض سے دوگے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجاوے تو یہ اللہ تعالی کے نزدیک نہیں بڑھتا۔" (سورۃ الروم، رقم الآیۃ:39، ترجمہ:بیان القرآن)

مفسرین نے نیوتہ کے لین دین کو بھی  اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے سود ہونے کی بنا  پر ناجائز قرار دیا ہے، جیسے کہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پرنظر رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے وقت میں کچھ دے گا کبھی رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں ”نوتہ“ کہتے ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربو سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی"۔

(معارف القرآن، سورہ روم، ج:6، ص:750، ط:مکتبہ معاف القرآن کراچی)

لہذا  جس برادری میں نیوتہ کی رسم ہے،  وہاں اگر شادی یا ولیمہ کے موقع پر کچھ دیا جاتا ہے جس کا باقاعدہ لینے والے اندراج بھی کرتے ہیں  یا دینے والی نیت واپس ملنے کی ہو اور اس کا عرف بھی ہو   تو ایسی صورت میں اس کا لین دین جائز نہیں ہوگا۔

البتہ اگر واپس لینے کی نیت نہ ہو، خالص ہدیہ یا مدد و تعاون ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ شریعت میں مطلوب ہے، اور شادی، ولیمہ میں رقم وغیرہ دیتے ہوئے خالص ہدیہ کی ہی نیت کرنی چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لا جبر على الصلات".

(كتاب الهبة، فصل فى مسائل متفرقة، ج:5، ص:710، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطًا اهـ.

قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضًا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه".

(كتاب الهبة، ج:5، ص:696، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144210200627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں