بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر مہندی لگانے کی رسم


سوال

شادی کے موقع پر مہندی لگانے  کی رسم کا کیا حکم ہے؟  موجودہ  دور کو  مد نظر رکھ کر تفصیلًا ذکر فرما دیں !

جواب

واضح رہے کہ نکاح ایک عبادت ہے ، اور عبادت اسی وقت عبادت کہلائے گی  جب اس کو  رسول اللہ ﷺ  کے طریقہ  پر  حکمِ خداوندی اور قربِ الٰہی کا ذریعہ  تصور  کرتے ہوئے کیا جائے، دوسری قوموں کے طریقہ پر نکاح کرنے سے  یہ عبادت  اور سنتِ نبویہ سے نکل کر  محض رسوم و رواج بنتا چلا جائے گا، جس  سے اس کی برکت ختم ہوتی جائے گی۔

حدیث مبارک میں ہے:

"وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً» . رواهما البيهقي في شعب الإيمان."

(2/268 مشکاۃ، کتاب النکاح،  ط:  قدیمی)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو "۔ 

لہذا شادی کے موقع پر  شرعی حدود میں رہتے ہوئے  لڑکی کو مہندی لگانے  اور زیب  و  زینت کرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک امر مستحسن ہے، اسی طرح لڑکی کے گھر والوں کے لیے  بھی اس خوشی کے موقع پر مہندی لگانے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن  اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ کے لباس پہن کر ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی ہے،  مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی  جاہلیت کی اور ہندو قوم  کی رسم  ہے،    نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحتًا ممانعت وارد ہے ،اس لیے مسلمانوں کے لیے اس رسم کو ترک کردینا ضروری ہے۔ 

ارشادِ خداوندی ہے : 

﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ  وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّه كَفُوْرًا﴾ [بنی إسرائیل : ۲۶-۲۷] 

ترجمہ: "اور  ( اپنے  مال کو  فضول اور بے موقع ) مت اُڑاؤ ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے "۔ 

حدیث مبارک میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: .... من تشبّه بقوم فهو منهم."

(المسند الجامع، (الجھاد)، 10/716 ،رقم الحدیث؛8127،  دار الجیل، بیروت)

وفیه أیضًا:

"وعن عائشة رض قالت: أومت امرأة من وراء ستر بيدها كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده فقال: «ما أدريأيد رجل أم يد امرأة؟» قالت: بل يد امرأة قال: «لو كنت امرأة لغيرت أظفارك» يعني الحناء. رواه أبو داود والنسائي."

(2/383، باب الترجل، ط؛ قدیمی)

نيز درج  ذىل لنك پر فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں:

نکاح کی سنت تقاریب اور مروجہ رسومات

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207201560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں