بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر گانا یا گیت گانے کا حکم


سوال

 شادی کے موقع پر گانا گانا یا گیت گانا یا غزل وغیرہ،  یہ سب جائز ہے یا نہیں؟ اگر نا جائز ہے تو بعض لوگ ان کے جواز پر حضرت ابن عباس رضی  اللہ عنہما والی حدیث  دلیل  کے  طور  پر  پیش کرتے ہیں اور سنن ابن ماجہ کا حوالہ دیتے ہیں!

جواب

سوال میں ذکر کردہ روایت میں گانے سے  مراد وہ گانے ہرگز نہیں جو آج دنیا میں رائج ہیں،بلکہ اس سے مراد چھوٹی بچیاں خوشی کے موقع پر گیت  گایا کرتی تھیں جو کہ قواعد موسیقی کے طور نہیں ہوتے تھےاور ان میں کوئی فحش بات یا اس کا مضمون شرکیہ وغیرہ نہیں ہوتا تھااور جو مضمون خراب ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرمادیتے تھے جبکہ  مروجہ گانے ساز ،باجوں ،فحش کلام اور دیگر واہیات پر مشتمل ہوتے ہیں، اورشرعی اعتبار سے موسیقی کے آلات اور ساز کے ساتھ گانا حرام ہے، چاہے گانے والا مرد ہو یا عورت، اور مجلس میں گائے یا تنہائی میں۔ اسی طرح جو اشعار کفر و شرک یا بے حیائی و گناہ کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کا گانا بھی (گو آلات و موسیقی کے بغیر ہو ) حرام ہے۔ البتہ مباح اشعار اور ایسے اشعار جو حمد و نعت یا حکمت و دانائی کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کا ترنم کے ساتھ پڑھنا جائز ہے،خلاصہ یہ ہے کہ  شادی یا خوشی کی  محافل میں مروجہ گانے گانا قطعاً ناجائز ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: أنكحت عائشة ذات قرابة لها من الأنصار، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‌فقال: «‌أهديتم ‌الفتاة؟» قالوا: نعم، قال: «أرسلتم معها من يغني» ، قالت: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الأنصار قوم فيهم غزل، فلو بعثتم معها من يقول: أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم ".

(كتاب النكاح، باب الغناء والدف، ج:1، ص:612، ط:دار احياء الكتب العربية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"فالسنة إعلان النكاح بضرب الدف وأصوات الحاضرين بالتهنئة أو النغمة في إنشاد الشعر المباح، وفي شرح السنة: معناه إعلان النكاح واضطراب الصوت به والذكر في الناس كما يقال فلان قد ذهب صوته في الناس وبعض الناس يذهب به إلى السماع وهذا خطأ يعني السماع المتعارف بين الناس الآن ."

(کتاب النکاح، باب اعلان النکاح والخطبة، ج:5، ص:2073، ط:دار الفكر)

عمدۃ القاری میں ہے:

"حدثنا خالد بن ذكوان قال: قالت الربيع بنت معوذ بن غفراء: جاء النبي صلى الله عليه وسلم، فدخل حين بني علي، فجلس على فراشس كمجلسك مني، فجعلت جويريات لنا يضربن بالدف وينذبن من قتل من آبائي يوم بدر إذ قالت إحداهن: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال: دعي هاذه وقولي بالذي كنت نقولين. 

قوله: (قال: دعي) أي: قال النبي صلى الله عليه وسلم لتلك الجارية التي قالت: وفينا نبي يعلم ام في غد، دعي أي: اتركي هذا القول، لأن مفاتح الغيب عند الله لا يعلمها إلا هو. قوله: (وقولي بالذي كنت تقولين) يعني: اشتغلي بالأشعار التي تتعلق بالمغازي والشجاعة ونحوها."

(کتاب النکاح، باب ضرب الدف في النكاح والوليمة، ج:20، ص:135، ط:دار احیاء التراث العربي)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وفي شرح السنة قيل: الغناء رقية الزنا. وقال الشافعي: ولو كان يديم الغناء ويغشاه المغنون معلنا، فهذا سفه يرد شهادته وإن كان يقل لا ترد شهادته. وقال النووي في الروضة: غناء الإنسان بمجرد صوته مكروه وسماعه مكروه، وإن كان سماعه من الأجنبية كان أشد كراهة، والغناء بآلات مطربة هو من شعار شاربي الخمر كالعود والطنبور والصنج والمعازف وسائر الأوتار حرام، وكذا سماعه حرام".

(کتاب الآداب، باب البیان والشعر، ج:7، ص:3024، ط:دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"فإن قلت: تعليل المصنف - رحمه الله - يجمع الناس على كبيرة يقتضي أن التغني مطلقا حرام وإن كان مفاده بالذات أن الاستماع كبيرة لأنهم إنما يجتمعون على الاستماع بالذات لأن كون الاستماع محرما ليس إلا لحرمة المسموع، وليس كذلك فإنه إذا تغنى بحيث لا يسمع غيره بل نفسه ليدفع عنه الوحشة لا يكره. وقيل لا يكره إذا فعله ليستفيد به نظم القوافي ويصير فصيح اللسان.

وقيل ولا يكره لاستماع الناس إذا كان في العرس والوليمة، وإن كان فيه نوع لهو بالنص في العرس. فالجواب أن التغني لإسماع نفسه ولدفع الوحشة خلافا بين المشايخ. منهم من قال: لا يكره، إنما يكره ما كان على سبيل اللهو احتجاجا بما عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أنه دخل على أخيه البراء بن مالك وكان من زهاد الصحابة وكان يتغنى، وبه أخذ شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله -.

ومن المشايخ من كره جميع ذلك، وبه أخذ شيخ الإسلام، ويحمل حديث البراء بن مالك أنه كان ينشد الأشعار المباحة التي فيها ذكر الحكم والمواعظ، فإن لفظ الغناء كما يطلق على المعروف يطلق على غيره. قال - صلى الله عليه وسلم - «من لم يتغن بالقرآن فليس منا» وإنشاد المباح من الأشعار لا بأس به."

(كتاب الشهادات، باب من تقبل شهادته ومن لا تقبل، ج:7، ص:408، ط:مصطفي البابي الحلبي)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"چھوٹی بچیاں خوشی کے وقت کچھ گیت گایا کرتی تھیں جو کہ قواعدِ موسیقی کے طور پر نہیں ہوتے تھے، ان میں کوئی فتنہ بھی نہیں ہوتا تھا، اور ان کا مضمون  بھی خراب نہیں ہوتا تھا اور جو مضمون خراب ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو منع فرمادیتے تھے جیسا کہ "وفينا نبي يعلم ما في غد"کو منع فرمادیا تھا،كذا في شرح البخارياس قسم کے گیت کی اب بھی اجازت ہے، بایں ہمہ اس کو آپ نے شیطان کا اثر بھی فرمایا، ممانعت کی روایت کثیر اور بڑھ کر ہیں۔ فقہاء کی جزئیات ممانعت میں مصرح ہیں، لہذا متعارف گانا بجانا قطعاً ناجائز ہے".

(کتاب النکاح، باب ما یتعلق بالرسوم عند الزفاف، ج:11، ص:221، 222، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں