بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر دیے جانے والے زیورات کا حکم


سوال

میرے بیٹے کی بیوی عورتوں کی آپس کی بات کو جواز بنا کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی، اور شوہر مسلسل بلاتا رہا، میں  خود واپسی کے  لیے بہو کے والد کے پاس گیا، ان کو منانے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں  ہوئی ، میری بیوی نے بھی بات کی، لیکن بہو کی واپسی ممکن نہیں  ہوئی۔اس طرح تقریباً سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔شوہر اپنی بیوی کو بلاتا  رہا، لیکن بیوی  اپنے شوہر کے گھر واپس نہیں آئی ، اس کے گھر والوں نے بھی نہیں  بھیجا، آخر شوہر نے تنگ آکر ایک طلاق دی، اور ان الفاظ  کو ریکارڈ کرکے لڑکی کے گھر والوں نے فتویٰ لیا اور  فتویٰ سے یہ طلاقِ بائن قرار پائی۔

کچھ سامان کی واپسی دونوں خاندانوں میں متنازع بنی:

ایک فریج جو لڑکی کے گھر سے آیا کھول دیا گیا تھا،  اس کے بدلے نئے فریج یا پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

نکاح کے فارم پر ہم نے پانچ گرام سونے کا سکہ مہر میں رکھا تھا جو فوری دے دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کسی چیز، سونا، جائیداد کا لڑکی کو مالک نہیں  بنایا گیا، نہ ہی  نکاح نامہ پر درج  ہے ۔دلہن کو مختلف مواقع پر جو سونے کے اور بناوٹی زیورات  پہنائے گئے  وہ سجاوٹ کے طور پر بھی ہوتے ہیں اور ان کا مالک لڑکی کو نہیں بنایا گیا، نہ  انہیں نکاح کے فارم پر ملکیت ظاہر کیا ، نہ  ایسی نیت  تھی۔

اب علیحدگی کے بعد لڑکی کے والدین اس کا مطالبہ کر  رہے ہیں اور لڑکے کے خاندان کی کردار کشی کر رہے ہیں  اور مختلف افراد کے ذریعہ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

برائے کرم دونوں خاندانوں کی دین کے مطابق راہ نمائی فرمائیں!

 

جواب

واضح رہے کہ  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو  پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوںں گے۔

لہٰذا بصورتِ  مسئولہ اگر  بہو  کو زیورات دیتے  وقت آپ کی طرف سے  کوئی وضاحت نہیں  تھی تو  اس صورت میں آپ کے ہاں کے عرف  کا شرعًا اعتبار ہوگا ، اگر عرف بطورِ  ملکیت دینے کا ہے تو اس صورت میں وہ مطالبے میں حق بجانب ہیں ، لیکن اگر عرف بطورِ  عاریت، اور استعمال کے  لیے دینے کا ہے تواس صورت میں  ان کا مطالبہ درست نہیں۔

باقی فریج جو لڑکی کے گھر سے آیا تھا وہ ان کا ہے، وہ اسی فریج  کا مطالبہ کرسکتے ہیں،  لیکن اس کے بجائے نئے فریج  کا مطالبہ شرعًا درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(3/158، باب المہر، ط:سعید)

       وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"و المعتمد البناء على العرف كما علمت."

(3/157، باب المہر، ط؛ سعید)  

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(1 / 327، الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144211201718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں