ہماری برادری میں شادی کے موقع پرلڑکے اور لڑکی والوں میں آپس میں تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، خاص طور پر لڑکی والے لڑکے کی والدہ، بہن وغیرہ کو قیمتی تحائف دیتے ہیں جن میں زیور، کپڑے اور نقدی وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر شادی کے کچھ عرصے بعد لڑکی والے یا لڑکے والے اپنے دیے گئے تحائف واپس مانگیں تو کیا حکم ہے؟ نیز اگر لڑکے اور لڑکی میں شادی کے کافی عرصے بعد علیحدگی ہوجائے تو کیا لڑکی اور لڑکے والے شادی کے موقع پر دیے گئے تحائف واپس مانگ سکتے ہیں؟ مذکورہ دونوں صورتوں کے بارے میں شرعی راہ نمائی فرمائیں۔
نکاح کے موقع پر جو جانبین سے تحائف کا لین دین ہوتا ہے، لڑکی کو جو میکہ والوں اور سسرال والوں کی طرف سے سامان ، کپڑے اور زیور وغیرہ ملتا ہے اس کے شرعی حکم میں یہ تفصیل ہے کہ جو سامان جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ لڑکی کو میکہ والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ لڑکی کی ملکیت شمار ہوتی ہے، اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے جو عام استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، یہ سب بھی لڑکی ہی کی ملکیت ہے، لہذا اس کا کسی موقع پر لڑکی سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔
اور لڑکی کو نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر زیورات دیتے وقت سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔
نیز نکاح کے موقع پر لڑکی والوں نے لڑکے والوں کی خاطر تواضع پر جو رقم خرچ کی ہے، یا لڑکے یا اس کی والدہ یا بہن کو کوئی چیز تحفہ میں دی ہے تو اس کاحکم ھبہ( گفٹ) کا ہے لڑکی والے بعد میں کسی موقع پر اس کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".
(3/158،کتاب النکاح، باب المہر، ط؛سعید)
وفیہ أیضاً:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."
(3/ 153، کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100485
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن