بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر دیے جانے والے زیورات کا حکم


سوال

میری شادی کو دو سال ہوئے تھے،اور 17 جنوری 2022ء کو میرے شوہر کا انتقال ہوگیا،میرے شوہر نے اور میری ساس نےمجھے شادی کے وقت جو زیورات دیے تھے،کیا اب وہ میری ملکیت ہے؟

(2)اور میرے شوہر کو میرے ماں باپ نے شادی کے وقت 4 سونے کے سکے دیے تھے،اور میرے شوہر کے پاس اپنی جمع کی ہوئی کچھ رقم ہے،جو کہ 50ہزار سے 40 ہزار تک ہے،اب یہ  رقم اور سونے کے سکے کس کی ملکیت ہے؟اس کو شریعت کے حساب سے کتنے لوگوں میں اور کتنے فیصد تقسیم کرنا چاہیے؟اور اس کے علاوہ کوئی گھر،گاڑی نہیں ہے،ورثاء میں بیوہ ،والدین،ایک بیٹی ہے۔

(3)میرے شوہر نے اپنے انتقال سے دو مہینے پہلے 70 ہزار کی بائیک لی تھی،جس کی رقم میری ساس سے ادھار لی تھی،اور کہا تھا جب میرے پاس پیسہ آئیں گے تو واپس دوں گا،میرے شوہر کےانتقال کے بعدوہ بائیک 50 ہزار کی بیچ دی،پھر ساس نے مجھ سے پوچھا ان پیسوں کا کیا کرنا ہے،تو میں نے کہا یہ آپ کے ہیں آپ رکھ لیں،جس پر ان کو 20 ہزار کا نقصان ہوا،میری ساس یہ 50 ہزار بائیک کے رکھ سکتی ہے۔

(4)میرے شوہر سے ان کے والد نے کچھ ادھار لیے تھے،جو  کہ کل رقم 3 لاکھ 40 ہزار بنتے ہیں،اور میرے سسر نے کہا تھا جب میرے پاس پراپرٹی سے رقم آئے گی تو میں دے دوں گا،لیکن ابھی تک پراپرٹی میں سے کوئی حصہ نہیں ملا،اور میرےسسر شادی کے بعد سے اب تک کچھ نہیں کماتے،اور شادی کے سامان میں کچھ زائد رقم خرچ ہوئی،اب میری ساس بولتی ہیں کہ  میرے شوہر کے انتقال کے بعد کوئی حساب نہیں،کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں سائلہ  کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو  پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالکہ سائلہ ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالکہ سائلہ  ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

(2) جو رقم ،اور سونے کے سکے شوہر کے پاس تھے،وہ ترکہ میں شمار ہوکر ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے،تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر اس کے ذمہ کوئی قرضہ ہو اسے ادا کرنے کے بعد،اگر اس نے کوئی جائزو صیت کررکھی ہو اسے ایک تہائی میں نافذ کرنےکے بعد باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 24 حصوں میں تقسیم کرکے،بیوہ کو 3 حصے،والدکو 5 حصے، والدہ کو 4 حصے،بیٹی کو 12 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:(شوہر)24۔۔۔

بیوہوالدوالدہبیٹی
35412

یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو 12.5فیصد،والد کو 20.8فیصد،والدہ کو  16.66فیصد،بیٹی کو 50.00فیصد ملے گا۔

(ـ3)مذکورہ رقم  سائلہ کے شوہر نے اپنی والدہ سے بطورِ قرض لی تھی،اس کی ادائیگی مرحوم کے ترکہ میں سے ہوگی،اگر موٹر سائیکل کی رقم 50ہزار  روپے لے کر بقیہ رقم معاف کرتی ہے تو بھی درست ہے،لیکن مذکورہ رقم لے کر بقیہ 20ہزار کے مطالبہ کا بھی حق حاصل ہے۔

(4)سائلہ کے شوہر کے والد کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ادھار کی رقم ادا کردے،پھر وہ رقم ورثاء میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(3/158، باب المهر، ط:سعید)

       وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

شریفیہ شرح السراجیہ میں ہے:.

"ثم تقضي ديونه من جميع مابقي من ماله أي ثم يبدأ بقضاء دينه من جميع ماله الباقي بعد االتجهيز والتكفين."

(ص:20 ط:بشرى)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث۔"

( کتاب الفرائض، الباب الأول:فی تعریف الفرائض وحقوقھا، ج:۵، ص:497، دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں