بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بدل خلع کے طور پر کیالیاجاسکتا ہے؟


سوال

میں نے اپنی بیوی کو شادی سے پہلے کپڑے وغیرہ خرید کر ایک لاکھ روپے دیے،اور شادی کے موقع پر حق مہر اسی ہزار روپےادا کیے،میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ کیا تمہیں حق مہر کے بدلے زیور دے دوں،مگر اس نے رقم کامطالبہ کیا،جو کہ میں نے کیش کی صورت میں اداکردی،اس کے علاوہ شادی کےوقت زیورات بھی دیے،جن میں مندرجہ ذیل اشیاء شامل ہیں: ہاتھ کے کنگن،پازیب،کانوں کے بندے،جھمکےاور گلے کا ہار۔اس کے علاوہ شادی کے  بعد ٹی وی خریدنے کے لیے چودہ ہزار پانچ سو روپے دئے۔

شادی کے چند دن بعد بیوی نے علیحدگی کا مطالبہ کیا ،مگر میں نے انکارکردیا،اور بہتری کے لیے کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہیں،اور گزشتہ دس ماہ سے وہ اپنی والدہ کے ساتھ مجھ سے علیحدہ رہ رہی ہے اور خلع کامطالبہ کررہی ہے،خلع کی صورت میں وہ میری مندرجہ ذیل چیزوں میں سے مجھے کیا واپس کرے گی،جب کہ میں اسے طلاق دینا نہیں چاہتا؟

جواب

واضح رہے خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے،جس فریقین یعنی میاں بیوی  میں سے ہر ایک کی رضامندی ضروری ہے،لہذا صورت مسئولہ میں سائل بدلِ خلع کے طور پر مذکورہ اشیاء میں سے جو لینا چاہے لے سکتا ہے،البتہ اگر کمی کوتاہی عورت کی طرف سے ہو تو مرد کے لیے مہر سے زیادہ لینامکروہ ہے،اور اگر کمی کوتاہی مرد کی طرف سے ہو تو مردکے لیے کچھ بھی لینا مکروہ ہے۔

"الفتاوی الهندية"میں ہے:

"‌إن ‌كان ‌النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان ‌النشوز ‌من ‌قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:488، ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله ‌فلا ‌بأس ‌بأن ‌تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، ج:1، ص:488، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں