بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے چند سال بعد شوہر سے خلع لینےکا حکم


سوال

 تین سال سے تقریباً میرا شوہر ہم بستری پر بالکل بھی قادر نہیں ہے، علاج بھی کرایا،لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، وہ مجھ سے تقریباً 13یا 14سال عمر میں بڑا ہے اور ہمارے 4 بچے بھی ہیں، میرا اس کے ساتھ بالکل بھی گزارانہیں ہوتا،میں چاہتی ہوں کہ اس سے علیحدگی ہو جائے اور کسی دوسرے تن درست مرد سے شادی کرلوں، لیکن یہ شوہر مجھے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے،کیا کوئی شرعی صورت بتا سکتے ہیں  جس کے تحت میں اس سے چھٹکاراپالوں اور دوسرے مرد سے نکاح کرلوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ عفت و پاکدامنی کے ساتھ وقت گزار سکتی ہے تو وہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارے،لیکن اگر عفت و پاکدامنی کے ساتھ وقت گزارنا ممکن نہ ہو تو سائلہ کو  چاہیےکہ اپنے شوہرکو علاج کےلیےمہلت دے،اور اگر وہ علاج کے باوجود تن درست نہ ہوتو اسے طلاق دینےیا خلع پر راضی کرلے، اس کے علاوہ سائلہ کو تنسیخِ نکاح کا حق حاصل نہیں ہےاور یہ بھی ملحوظ رہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر کورٹ کی یک طرفہ خلع نامہ جاری کرنے سے شرعاً خلع معتبر نہیں ہوتی، اور نکاح بدستور برقرار رہتا ہے۔

سنن أبی داود میں ہے:

"حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة".

(باب في الخلع،ج:2،ص:235،ط:المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"إذا ‌تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال."

(كتاب الطلاق،الباب الثامن في الخلع،‌‌الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به،ج:1،ص:488،ط:دار الفكر بيروت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں