میری شادی کو آج 19 دن ہوگئے ہیں، میرے شوہر نے پہلی رات مجھ سے بنا اجازت لیے یا پوچھے مجھ سے 4 مرتبہ جماع کیا، مجھے اگلی صبح ہسپتال جانا پڑا لیکن ڈاکٹر کی پرہیز کہنے کے باوجود اس نے مجھ سے ہر روز جماع کیا کہ مجھے زخم آگیا۔ ویسے وہ میری تمام ضروریات پوری کرتا ہے لیکن نماز قرآن سے دور ہے ، مجرہ گانے گلو باتیں اور بچی بچی کرنا اسکی بری فطرت ہے۔ اسے ہر وقت ایک چیز چاہیے۔ میں اس سے بہت تنگ آگئی ہوں اور میرا پہلے دن سے اس شخص کا چہرہ دیکھنے سےدل خراب ہوتا ہے۔ پلیز مجھے بتائیں میں کیا کروں، خلع لینا چاہتی ہوں، لیکن میرا شوہر یتیم ہے۔ مجھے اس کے ساتھ سانس لینا عذاب لگتا ہے لیکن والدین کی وجہ سے مجبور اور خاموش ہوں اور دل میں اس کے لیے نفرت رکھ کر گناہ گار ہورہی ہوں، پلیز میری مدد کیجیے کہ میں کیا کروں؟
صورتِ مسئولہ میں آپ دونوں میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھیں اور اس کی رعایت کریں۔ مثلاً آپ کو جاننا چاہیے کہ شوہر آپ کے قریب آنے سے پہلے آپ کی اجازت کا پابند نہیں ہے، نیز شوہر کو جاننا چاہیے کہ اپنی حاجت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ وہ آپ کی طبیعت کا خیال رکھنے کا بھی پابند ہے، اتنی کثرت سے جماع کرنا جس کی بیوی متحمل نہ ہو، درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کسی عالمِ دین سے ملنا مفید ہوگا۔
باقی نباہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے سمجھدار قسم کے بڑوں کے سامنے اپنے معاملات پیش کریں تاکہ وہ مناسب رہنمائی کر سکیں۔ بعض اوقات شادی کے بعد شروع میں طبیعتیں نہیں ملتیں، لیکن کچھ عرصہ بعد باہمی ہم آہنگی ہوجاتی ہے؛ لہذا اتنا جلد رشتہ ختم کرنے کا خیال ترک کر دینا چاہیے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"ومنها ولاية التأديب للزوج إذا لم تطعه فيما يلزم طاعته بأن كانت ناشزة، فله أن يؤدبها لكن على الترتيب، فيعظها أولا على الرفق واللين بأن يقول لها كوني من الصالحات القانتات الحافظات للغيب ولا تكوني من كذا وكذا، فلعل تقبل الموعظة، فتترك النشوز، فإن نجعت فيها الموعظة، ورجعت إلى الفراش وإلا هجرها.
وقيل يخوفها بالهجر أولا والاعتزال عنها، وترك الجماع والمضاجعة، فإن تركت وإلا هجرها لعل نفسها لا تحتمل الهجر، ثم اختلف في كيفية الهجر قيل يهجرها بأن لا يجامعها، ولا يضاجعها على فراشه، وقيل يهجرها بأن لا يكلمها في حال مضاجعته إياها لا أن يترك جماعها ومضاجعتها؛ لأن ذلك حق مشترك بينهما، فيكون في ذلك عليه من الضرر ما عليها، فلا يؤدبها بما يضر بنفسه، ويبطل حقه، وقيل يهجرها بأن يفارقها في المضجع، ويضاجع أخرى في حقها وقسمها؛ لأن حقها عليه في القسم في حال الموافقة وحفظ حدود الله تعالى لا في حال التضييع وخوف النشوز والتنازع وقيل يهجرها بترك مضاجعتها، وجماعها لوقت غلبة شهوتها، وحاجتها لا في وقت حاجته إليها؛ لأن هذا للتأديب والزجر، فينبغي أن يؤدبها لا أن يؤدب نفسه بامتناعه عن المضاجعة في حال حاجته إليها، فإذا هجرها، فإن تركت النشوز، وإلا ضربها عند ذلك ضربا غير مبرح، ولا شائن، والأصل فيه قوله عز وجل {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن} [النساء: 34] ، فظاهر الآية وإن كان بحرف الواو الموضوعة للجمع المطلق لكن المراد منه الجمع على سبيل الترتيب، والواو تحتمل ذلك، فإن نفع الضرب، وإلا رفع الأمر إلى القاضي ليوجه إليهما حكمين حكما من أهله، وحكما من أهلها كما قال الله تعالى: {وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما} [النساء: 35] ، وسبيل هذا سبيل الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر في حق سائر الناس أن الآمر يبدأ بالموعظة على الرفق واللين دون التغليظ في القول، فإن قبلت، وإلا غلظ القول به، فإن قبلت، وإلا بسط يده فيه، وكذلك إذا ارتكبت محظورا سوى النشوز ليس فيه حد مقدر، فللزوج أن يؤدبها تعزيرا لها؛ لأن للزوج أن يعزر زوجته كما للمولى أن يعزر مملوكه."
(كتاب النكاح، فصل المعاشرة بالمعروف، ج2 ص334، دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307102395
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن