شادی بیاہ اور دیگر معاملات میں دولہا دلہن وغیرہ پر پیسے پھینکنا اور وہ پیسے پکڑنا اور اُن پیسوں کا استعمال کرناکیسا ہے؟
شادی بیاہ اور دیگر معاملات وغیرہ میں پیسے پھینکنا شرعاپسندیدہ عمل نہیں ہے، کیوں کہ اس میں نام ونمود اورمال کا ضیاع ہے، البتہ اگر کوئی شادی بیاہ میں پیسے پھینکتا ہے تو پیسہ پکڑنے والا اس کا مالک بن جائے گا اور اس کے لیے اس پیسے کا استعمال کرنا بھی جائز ہوگا کیونکہ شادی بیاہ کے موقع پر پیسے پھینکنے والے کا مقصد اور منشاہی یہی ہوتا ہے کہ جو ان پیسوں کو لے گا وہ اس کا مالک ہوگا ۔شادی بیاہ کے علاوہ دیگر معاملات میں پیسہ پھینکنے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا اگر وہ اس نیت سے پیسے پھینک رہا ہے کہ جو اس کو لے گا وہ اس کا مالک بن جائے گا تو اس صورت میں پیسہ پکڑنے والا پیسے کا مالک بن جائے گا اور اس کے لیے اسے استعمال کرنا جائز ہوگا۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن المغيرة بن شعبة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الله حرم عليكم: عقوق الأمهات، ووأد البنات، ومنع وهات، وكره لكم قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال".
(كتاب في الاستقراض واداء الدين، باب ما ينهي عن اضاعة المال، ج:3، ص:120، ط:دار طوق النجاة)
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب ألقى شيئا وقال من أخذه فهو له [فروع] ألقى شيئا وقال من أخذه فهو له فلمن سمعه أو بلغه ذلك القول أن يأخذه وإلا لم يملكه؛ لأنه أخذه إعانة لمالكه ليرده عليه، بخلاف الأول؛ لأنه أخذه على وجه الهبة وقد تمت بالقبض. ولا يقال: إنه إيجاب لمجهول فلا يصح هبة؛ لأنا نقول: هذه جهالة لا تفضي إلى المنازعة والملك يثبت عند الأخذ. وعنده هو متعين معلوم، ۔۔۔۔۔ ويقرره أن مجرد الإلقاء من غير كلام يفيد هذا الحكم كمن ينثر السكر والدراهم في العرس وغيره، فمن أخذ شيئا ملكه؛ لأن الحال دليل على الإذن".
(كتاب اللقطة، ج:4، ص:285، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101234
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن