بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی بیاہ میں پیسے دے کر ان کوواپس لینے کا حکم


سوال

شادیوں میں جو پیسے دلہن یا دلہے کو  دیے جاتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟  ان کے نام لکھے جاتے ہیں ،  پھر ان کے یا ان کے کسی بچے کی شادی کے موقع پر  واپس انہیں  دیے جاتے ہیں ؟

جواب

 شادی اور ولیمہ کی دعوت میں آنے والے لوگ اگر صاحبِ دعوت یعنی دولہا یا دولہن کو اس لیے رقم یا لفافہ دیتے ہیں کہ بعد میں وہ صاحبِ دعوت رقم یا لفافہ دینے والوں کی شادی کی دعوت میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گاتو یہ سودی قرض ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے ہیں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ قرض ہے، اور اسی قدر  واپسی لازم ہے۔
البتہ اگر واپس لینے کی نیت نہ ہو، خالص ہدیہ یا مدد  و تعاون ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ شریعت میں مطلوب ہے، اور شادی، ولیمہ میں رقم وغیرہ دیتے ہوئے خالص ہدیہ کی  ہی نیت کرنی چاہیے، قرض کی نیت سے ہدیہ دینے کی رسم "نیوتہ" کہلاتی ہے، اسے ترک کرنا لازم ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 ’’وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته، وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ.قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه‘‘.  

(کتاب الهبة، ج:۵ ؍۶۹۶ ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں