بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شدید ضرورت میں سود کی رقم کا استعمال


سوال

شدید ضرورت کے وقت بینک کے انٹریسٹ کا پیسہ اپنے استعمال میں لاکر بعد میں اس کا بدل دینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سود لینا اور دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں،حدیثِ مبارک میں  سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی  گئی ہے، اور بھی اس پر  قرآن  و  احادیث  میں سخت  وعیدات وارد ہوئی ہیں۔

سائل کی سخت ضرورت کیا ہے؟اور سود لینے کی کیا صورت ہوگی ؟اس کو تفصیل سے لکھ کر دوبارہ معلوم کریں ۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء . رواه مسلم."

(صحيح المسلم،  کتاب المساقات، ٣/ ١٢١٩، ط: دار احیاء التراث۔ مشكاة المصابيح،   كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول، ٢/ ٨٥٥، ط: المكتب الإسلامي)

"ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اور سود کے معاملے کو لکھنے والے اور اس میں گواہ بننے والے پر اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه»."

(كتاب البيوع، باب الربا، ٢/ ٨٥٩، ط: المكتب الاسلامي)

ترجمہ: "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سود (میں) ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔"

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا."

(كتاب الحوالة، باب كل قرض جر منفعة، ١٤/ ٥١٣، ط:  ادارۃ القرآن)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي القنية من الكراهية: لا بأس بالبيوع التي يفعلها الناس للتحرز عن الربا ثم رقم آخر هي مكروهة ذكر البقالي الكراهة عن محمد، وعندهما لا بأس به، قال الزرنجري خلاف محمد في العقد بعد القرض أما إذا باع ثم دفع الدراهم لا بأس بالاتفاق. اهـ. وفي القنية من الكراهية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح اهـ."

(کتاب البیع، باب الربوا، ٦/ ١٣٧، ط:دار الکتاب الاسلامی)

      الاشباہ والنظائر میں ہے:

""السادسة: الحاجة تنزل منزلة الضرورة، عامةً كانت أو خاصةً ... وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (انتهى)."

(الفن الاول، القاعدة الخامسة، ص: ٩٣، ط:قدیمی)

غمز عیون البصائر میں ہے:

"قوله: يجوز للمحتاج ‌الاستقراض ‌بالربح، وذلك نحو أن يقترض عشرة دنانير مثلا، ويجعل لربها شيئا معلوما في كل يوم ربحا."

(الفن الأول، النوع الأول، القاعدۃ الخامسة، ١/ ٢٩٤، ط:دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں