بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شدید عذر کی وجہ سے 4 ماہ سے پہلے اسقاطِ حمل


سوال

میری ایک 13 ماہ کی بچی ہے جو آپریشن سے ہوئی تھی۔ اللہ کے کرم سے  میری بیوی پھر سے امید سے ہے۔ بچے کو 7 ہفتے ہوئے ہیں، اور اب تک دل کی دھڑکن کے آثار نہیں ملے ہیں۔ پہلے بچی  چوں کہ آپریشن سے ہوئی تھی، اس لیے اب بھی جو اندر  کی سلائی (stiches) ہے، وہ اتنی مضبوط نہیں ہے کہ ایک اور بچہ جن سکے۔ دوبارہ آپریشن کی ہی ضرورت ہوگی۔ نیز میری بیوی کم زور بھی ہے اور  13 ماہ کی بچی کو دودھ بھی پلاتی ہے۔ اور ہم اکیلے ہی متحدہ عرب امارات میں رہ رہے ہیں، فیملی کے کوگ بھی یہاں نہیں ہیں کہ بچوں کی دیکھ بھال میں ان سے مدد لے لیں، کیا حمل ساقط کرسکتے ہیں ؟

جواب

 حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ   ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے  یا خراب ہوجائے جس  سےپہلے بچے کو نقصان ہو  اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے تو ایسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    حمل  ساقط کرنے کی گنجائش ہے، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا گناہ ہے، اس لیے صرف بچے کی شیرخوارگی کی وجہ سے حمل ساقط نہ کروائیں، اگر واقعتًا  مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر ہو تو گنجائش ہوگی۔

صورت مسئولہ میں جو  تفصیل آپ نے ذکر کی ہے، اس حساب سے حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ صرف الٹراساؤنڈ وغیرہ کی روشنی میں حمل میں جان کا نہ ہونا شرعًا معتبر عذر نہیں ہے۔

' فتاوی عالمگیری' میں ہے؛

"امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو، وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً: أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان."  (5 / 356، ط:رشیدیہ)

موسوعہ فقہیہ میں ہے :

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل". (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں