بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شدید غصہ میں طلاق کا حکم


سوال

شدید غصہ میں طلاق کا کیا  حکم ہے ؟

جواب

طلاق عموماً  غصہ کی ہی حالت میں دی جاتی ہے، اور غصہ  کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع ہوجاتی ہے؛ لیکن اگر کسی شخص کی غصہ  کی وجہ سے ایسی کیفیت ہوجائے  کہ اس کو ہوش نہ رہے اور وہ اچھی بری باتوں میں  تمیز نہ کرسکے،  بیوی، ماں اور بہن میں تمیز اور فرق کی صلاحیت ختم ہوجائے  اور وہ   نفع  و نقصان کو نہ سمجھ سکے، اس کو یہ کیفیت اس سے پہلے بھی متعدد بار پیش آئی ہو  اور لوگوں میں اس کی یہ کیفیت معروف و مشہور ہو  اور اس نے ایسی حالت میں طلاق دی ہو  تو وہ  طلاق واقع نہیں ہوتی اور اگر  طلاق دیتے وقت اس کی ایسی حالت نہ ہو  جیسا کہ  ماقبل میں ذکر ہوا تو پھر ایسے شخص کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔آپ نے سوال میں یہ وضاحت نہیں کی کہ کتنی مرتبہ اور کون سا طلاق کا لفظ استعمال کیا ہے ،اس لئے اس سے متعلق اگر مزید تفصیل درکار ہے توطلاق کے الفاظ اور تعداد لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔

فتاوی شامی میں ہے :

" قلت وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها: أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه. الثاني: أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله. الثالث: من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال ويقع طلاق من غضب خلافًا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش".

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:244،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں