بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی شدہ بیٹی کا اپنی والدہ پر خرچ کرنے کا حکم


سوال

میری شادی کو چار سال ہوچکے ہیں، میری والدہ اکثر مجھ سے پیسے مانگ چکی ہیں، میرے میکے کے مالی حالات تھوڑے تنگ ہیں، ایسے کہ امی کو ماہانہ خرچ ملتا ہے، مگر اوپر کے کوئی پیسے نہیں ملتے، میں اپنی پاکٹ منی سے یا کبھی جو پیسے اس وقت موجود ہوتے ہیں، دو تین ہزار اگر انہوں نے مانگے تو دے دیتی ہوں، میرے شوہر کو اس بات کا علم ہے، تو کیا یہ پیسے دینا صحیح ہوگا؟ اگر نہیں تو کیسے منع کیا جائے کہ انہیں برا بھی نہ لگے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں   اگر والدہ ضرورت مند ہو  اور  سائلہ کےپاس اپنی رقم ہو اور مالی وسعت بھی ہو تو اس صورت میں   والدہ پر خرچ کرنا نہ صرف درست  بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے، حدیث شریف میں آتا ہے ،"کہ  جب مسلمان اپنے اہل پر کوئی خرچہ کرتا ہے اور نیت ثواب کی ہوتی ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے"،اور دوسری روایت میں ہے ،"کہ کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔"

لہذا سائلہ اپنی وسعت کے مطابق اپنی والدہ سے اپنے مال کے ساتھ تعاون کرتی رہے ،یہ اس کے لیے خیروبرکت کا باعث ہوگا ۔

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أنفق المسلم ‌نفقة ‌على ‌أهله وهو يحتسبها كانت له صدقة."

(كتاب الزكاة، باب افضل الصدقة، ج:1، ص:602، ط:المكتب الاسلامي)

و فیہ ایضاً:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي".

(کتاب الآداب،باب افضل الصدقۃ،ج:1ص:604،ط:المکتب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں