حضرت عمر فاروق پر جب قاتلانہ حملہ ہوا اور آپ شھید ہو گئے تب آپ کے ذمے کتنا قرض تھا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر شہادت کےوقت چھیاسی ہزار درہم قرضہ تھا جیسا کی بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے شہادت سے قبل اپنےبیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے۔ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم، فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی(جوکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کاخاندان تھا) سے درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں تو قریش سے، لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قرض ان ہی خاندان میں سے ایک شخص نےادا کرلیا، جس کے بارے میں نافع جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے، کہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قرض کیوں کر رہ سکتا تھا، حال آں کہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصہ وراثت کو ایک لاکھ میں بیچا تھا، اوربیت المال میں جمع کردیا تھا۔
صحيح البخاري میں ہے:
قَالَ: رُدُّوا عَلَيَّ الغُلاَمَ، قَالَ: ... يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، انْظُرْ مَا عَلَيَّ مِنَ الدَّيْنِ، فَحَسَبُوهُ فَوَجَدُوهُ سِتَّةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ: إِنْ وَفَى لَهُ، مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّهِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَإِلَّا فَسَلْ فِي بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَإِنْ لَمْ تَفِ أَمْوَالُهُمْ فَسَلْ فِي قُرَيْشٍ، وَلاَ تَعْدُهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ، فَأَدِّ عَنِّي هَذَا المَالَ.
(كتاب المناقب، باب قصة البیعة، ج:4،ص:1677، ط:مکتبه بشرى)
وقد أنكر نافع مولى بن عمر أن يكون على عمر دين فروى عمر بن شبة في كتاب المدينة بإسناد صحيح أن نافعا قال من أين يكون على عمر دين وقد باع رجل من ورثته ميراثه بمائة الف انتهى وهذا لاينفي أن يكون عند موته عليه دين۔
(باب قصة البیعة، ج:7،ص:66، ط:دارالمعرفة، بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144201200149
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن