1:کیا نزاعی یا اختلافی معاملات میں اصل فریقین کے بیانات ان کے اپنے دستخط سے آنے چاہئیں؟ نیز کسی ایک فریق کے بیٹے کی طرف سے پیش کئے گئے مؤقف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جبکہ دوسرے فریق کو اس بات پر اعتراض ہو کہ بیٹے کی طرف سے پیش کئے گئے تحریری مؤقف پر باپ کے دستخط موجود نہیں ہیں۔
2:کیا شریعت میں معاہدہ کے دستاویز میں فریقین کے درمیان اختلاف ہونے کی صورت میں مدعی کے دعویٰ کی سچائی اور حقیقت جاننے کے لئے اور دستاویز پر فریقین کی رضامندی کی تصدیق اور دستاویز کی حقیقت کو معتبر تسلیم کرنے کے لئے گواہان کی گواہی کا ہونا ضروری ہے؟ جبکہ دستاویز میں گواہان کی موجودگی کا تو تحریری طور پر ذکر موجود ہے، لیکن درحقیقت گواہان موجود نہیں ہیں، ایسی صورت میں دستاویز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
1:واضح رہے کہ اگر والدنے اپنے بیٹے کو اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت دی ہو یا اپنا وکیل بنایا ہو اور پھر بیٹا والد کی طرف سے مؤقف پیش کرے تو شرعًا یہ جائز ہے، اور اس مؤقف کا اعتبار ہوگا، اگربیٹے کی طرف سے پیش کئے گئے مؤقف پر والد دستخط کئے بغیر ہی اس مؤقف کی تائید کرےتو فریقِ مخالف کو اس پرشرعًا اعتراض کا حق حاصل نہ ہوگا،اگرچہ بہتر یہی ہے کہ والد بیٹے کی طرف سے پیش کئے گئے اپنے مؤقف پر دستخط بھی کرلے۔ البتہ اگر والد نے اپنے بیٹے کو اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی یا اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے وکیل نہیں بنایا یا بیٹا والد کے مؤقف کے خلاف مؤقف پیش کرے اور والد اس کی مخالفت کرےتو اس صورت میں بیٹے کی طرف سے پیش کئے گئے مؤقف کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی اور فریقِ مخالف کو اس پر اعتراض کا حق حاصل ہوگا، نیز کسی معاملہ میں اختلاف ہوجانے کی صورت میں فریقین یا ان کے وکیلوں کے دستخط کا ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ فریقین یا ان کے وکیل دستخط کرلیں، تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو۔
2:دستاویز کے معاملہ میں فریقین کا اختلاف ہوجانے کی صورت میں گواہوں کی گواہی کا ہونا ضروری ہے جو اس بات کی تصدیق کریں کہ یہ معاملہ دونوں فریقین کی رضامندی سے ہوا تھا، نیز اگر کسی دستاویز میں گواہ کی موجودگی کا ذکر موجود ہو لیکن حقیقت میں کوئی گواہ موجود نہ ہو تو تحریر میں موجود گواہان کے علاوہ بھی اگر معاہدہ، کوئی گواہ موجود ہوں تو انہیں پیش کیا جاسکتا ہے، کوئی گواہ نہ ہو تو ثالث کی ذمہ داری ہے کہ جس فریق پر شرعًا قسم آتی ہو اسے مناسب الفاظ سے قسم کہلائے اور شرعی طریقہ سے فیصلہ کرے۔
قرآنِ مجیدمیں ہے:
"وَلَا تَسْئَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلیٰ اَجَلِہٖ ط ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدْنیٰ اَلَّا تَرْتَابُوْٓا"[الآيۃ]
(سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۸۲)
ترجمہ: ’’اور تم اس (دَین) کے (بار بار) لکھنے سے اُکتایا مت کرو، خواہ وہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، یہ لکھ لیناانصاف کا زیادہ قائم رکھنے والا ہے، اللہ کے نزدیک اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ سزاوار ہے اس بات کا کہ تم (معاملہ کے متعلق) کسی شبہ میں نہ پڑو ۔۔۔ الخ۔‘‘
الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:
"تتعلق بالوكيل أحكام، منها: الأول: أن يقوم الوكيل بتنفيذ الوكالة في الحدود التي أذن له الموكل بها أو التي قيده الشرع أو العرف بالتزامها."
(وكالة، أحكام الوكالة:الحكم الأول، تنفيذ الوكالة، ج:37، ص:45، ط:دارالسلاسل)
فتاوی شامی میں ہے:
"والطريق فيما يرجع إلى حقوق العباد المحضة عبارة عن الدعوى والحجة: وهي إما البينة أو الإقرار أو اليمين أو النكول عنه أو القسامة أو علم القاضي بما يريد أن يحكم به أو القرائن الواضحة التي تصير الأمر في حيز المقطوع به."
(كتاب القضاء، ج:5، ص:354، ط:دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا بأس للإنسان أن يحترز عن قبول الشهادة وتحملها، وفي باب العين من كراهية الواقعات رجل طلب منه أن يكتب شهادته، أو يشهد على عقد فأبى ذلك، فإن كان الطالب يجد غيره جاز له الامتناع عنه وإلا فلا يسعه الامتناع كذا في الذخيرة وعلى هذا أمر التعديل إذا سئل من إنسان، فإن كان هناك سواه من يعدله يسعه أن لا يجيب وإلا لم يسعه أن لا يقول فيه الحق حتى لا يكون مبطلا للحق كذا في المحيط.ويلزم أداء الشهادة ويأثم بكتمانها إذا طلب المدعي، وإنما يأثم إذا علم أن القاضي يقبل شهادته وتعين عليه الأداء، وإن علم أن القاضي لا يقبل شهادته، أو كانوا جماعة فأدى غيره ممن تقبل شهادته فقبلت قالوا لا يأثم."
(کتاب الشهادات، الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والإمتناع عن ذلك، ج:3، ص:452، ط:رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100468
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن