بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شبِ براءت میں بیر کے پتے کے پانی سے غسل کرنا


سوال

شبِ برءات کو بیر کے پتے سے غسل کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیر کے پتے کے پانی  کو علاج اورصفائی میں مبالغہ کے طور پر  بلا تعیین  کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے ، جیسا کہ بعض کتبِ حدیث  میں اس کاذکرہے اور حائضہ   حیض سےپاکی کے بعد  اورمیت کوغسل دینے اورصفائی میں مبالغہ کے خاطرپانی میں بیری کے پتے شامل کرنے  کابھی ذکرآیاہے۔

لیکن خاص  شب برأت کوبیری کے پتے پانی میں ڈال کرثواب کی نیت  سے نہانا  بدعت ہے ، احکامِ شرعیہ  کی کسی بھی مستند  کتاب  میں اس عمل کا ذکرنہیں ہے،اس لیے شب برأت میں غسل کو بیری کےپتوں کےساتھ مخصوص کرنابالکل بےبنیاد  اور من گھڑت بات ہے ،  اس کےباعثِ ثواب وبرکت ہونےکےبارے میں کوئی   شرعی دلیل نہیں ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وفي كتب وهب بن منبه: أن يأخذ ‌سبع ‌ورقات من سدر أخضر فيدقها بين حجرين ثم يضربها بالماء، ثم يقرأفيه آية الكرسي وذوات: قل، ثم يحسو منه ثلاث حسوات ويغتسل به، فإنه يذهب عنه كل عاهة وهو جيد للرجل إذا حبس عن أهله."

(عمدۃ القاری ،باب هل يستخرالسحر،ج:21،ص:282،ط:دارالاحياءالتراث العربي،بيروت)

بذل المجہود میں ہے:

"عن صفية بنت شيبة، عن عائشة قالت: دخلت أسماءعلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فقالت: يا رسول الله، كيف تغتسل إحدانا إذا طهرت من المحيض؟ قال: تأخذ سدرها وماءها) والسدر: شجر النبق، ومعنى الكلام أنها تأخذ الماء الذي أغلي فيها ‌أوراق ‌السدر، وإنما أمرها به للمبالغة في التنظيف، لأنه يطيب الجسد."

(باب الاغتسال من الحیض: ج:2،ص:122، ط: مرکزالشیخ أبی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الإسلامیة)

وفیه أیضاً:

"حدثنا هدبة بن خالد، نا همام، نا قتادة، عن محمد بن سيرين، أنه كان يأخذ الغسل) أي يتعلم غسل الميت (من أم عطية: يغسل بالسدر) أي بالماء الذي تغلى فيه ‌أوراق ‌السدر (مرتين، والثالثةَ بالماء والكافور) أي بالماء الذي يلقى فيه الكافور."

(باب فی الکفن : ج:10،ص:424، ط: مرکزالشیخ أبی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الإسلامیة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں