بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شب براءت کے متعلق شریعت کا حکم؟ اس میں رات میں شرعی طور پر کسی عبادت کا حکم ہے؟


سوال

 شب برات کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا اس رات میں شرعی طور پر کسی عبادت کا حکم ہے؟

جواب

شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں توبہ کرنے والوں کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“

دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟

ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوربزرگانِ دین رحمھم اللہ  کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

دو کام تو قولی حدیث میں بیان ہوئے ہیں، اور ایک کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک سے ثابت ہے۔

۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ  ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا، یعنی اللہ کی عبادت میں شب بیداری کرنا۔

لیکن اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے، یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔

۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے؛ لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔

باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔

سنن إبن ماجہ میں ہے:

"حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا عبد الرزاق قال: أنبأنا ابن أبي سبرة، عن إبراهيم بن محمد، عن معاوية بن عبد الله بن جعفر، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كانت ليلة النصف من شعبان، فقوموا ليلها وصوموا نهارها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا، حتى يطلع الفجر. "

(باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، رقم: 1388، ج: 1، ص: 444، ط: دار إحياء الكتب العربية)

شعب الایمان للبیھقی میں ہے:

" أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ومحمد بن موسى، قالا: حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، حدثنا محمد بن عيسى بن حيان المدائني، حدثنا سلام بن سليمان، أخبرنا سلام الطويل، عن وهيب المكي، عن أبي رهم، أن أبا سعيد الخدري، دخل على عائشة، فقالت له عائشة: يا أبا سعيد حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأحدثك بما رأيته يصنع، قال أبو سعيد: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج إلى صلاة الصبح، قال: " اللهم املأ سمعي نورا، وبصري نورا، ومن بين يدي نورا، ومن خلفي نورا، وعن يميني نورا، وعن شمالي نورا، ومن فوقي نورا، ومن تحتي نورا، وعظم لي النور برحمتك ". وفي رواية محمد: " وأعظم لي نورا " ثم اتفقا قالت عائشة: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضع عنه ثوبيه ثم لم يستتم أن قام فلبسهما فأخذتني غيرة شديدة ظننت أنه يأتي بعض صويحباتي فخرجت أتبعه فأدركته بالبقيع بقيع الغرقد يستغفر للمؤمنين والمؤمنات والشهداء، فقلت: بأبي وأمي أنت في حاجة ربك، وأنا في حاجة الدنيا فانصرفت، فدخلت حجرتي ولي نفس عال، ولحقني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا النفس يا عائشة؟ "، فقلت: بأبي وأمي أتيتني فوضعت عنك ثوبيك ثم لم تستتم أن قمت فلبستهما فأخذتني غيرة شديدة، ظننت أنك تأتي بعض صويحباتي حتى رأيتك بالبقيع تصنع ما تصنع، قال: " يا عائشة أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله، بل أتاني جبريل عليه السلام، فقال: هذه الليلة ليلة النصف من شعبان ولله فيها عتقاء من النار بعدد شعور غنم كلب، لا ينظر الله فيها إلى مشرك، ولا إلى مشاحن، ولا إلى قاطع رحم، ولا إلى مسبل، ولا إلى عاق لوالديه، ولا إلى مدمن خمر " قال: ثم وضع عنه ثوبيه، فقال لي: " يا عائشة تأذنين لي في قيام هذه الليلة؟ "، فقلت: نعم بأبي وأمي، فقام فسجد ليلا طويلا حتى ظننت أنه قبض فقمت ألتمسه، ووضعت يدي على باطن قدميه فتحرك ففرحت وسمعته يقول في سجوده: " أعوذ بعفوك من عقابك، وأعوذ برضاك من سخطك، وأعوذ بك منك، جل وجهك، لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك "، فلما أصبح ذكرتهن له فقال: " يا عائشة تعلمتهن؟ "، فقلت: نعم، فقال: " تعلميهن وعلميهن، فإن جبريل عليه السلام علمنيهن وأمرني أن أرددهن في السجود "، " هذا إسناد ضعيف وروي من وجه آخر. "

(ما جاء في ليلة النصف من شعبان، رقم: 3556، ج: 5، ص: 362، ط: مكتبة الرشد)

مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاویٰ بینات،جلد :اول،صفحہ:۵۵۲تا۵۵۷،مطبوعہ:مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144408100892

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں