بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شعبان نام رکھنا


سوال

 میرے دادا کا نام محمد شعبان شیخ تھا۔  میرے کزن چچازاد بھائی کا نام   دادا محترم کے نام پر رکھا گیا تھا لیکن وہ صرف دستاویزی رسومات تک مشتمل ہے اسے دوسرے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ لیکن اب ان شاء اللّه مجھے بھی بیٹا ہونے والا ہے۔ چونکہ مجھ سے میرے دادا محترم کا لگاؤ بہت زیادہ تھا تو میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنے پہلے بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھوں۔ لیکن میں یہ دستاویزات کی حد تک نہیں رکھنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں گھر کے باہر کی دنیا میں بھی اسے میرے دادا کے نام سے پکارا جائے، برائے مہربانی مشورہ دیا جائے کہ یہ نام رکھنا درست ہے یا نہیں ؟

جواب

"شعبان" اسلامی مہینوں میں سے آٹھواں مہینہ ہے۔لہٰذا مذکورہ مہینے کی برکات اور فضائل کی مناسبت سے بچے کانام شعبان  رکھنا جائز ہے۔

اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ بچہ کا نام بعینہ اس کے باپ دادا کے نام پر رکھنا بھی جائز ہے، اور سلفِ صالحین سے بھی اس کا ثبوت بکثرت ہے۔

البتہ ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام  علیہم السلام، صحابہ کرام  علیہم الرضوان ، یا اچھے معنی والے عربی نام رکھے جائیں۔

«الأزمنة وتلبية الجاهلية» میں ہے:

"وأمَّا ‌شَعْبان فَلِتَشَعُّبِ القبائلِ واعتزالِ (192) بَعْضِهم بَعْضاً."

 (ص38،المؤلف: محمد بن المستنير بن أحمد، أبو علي، الشهير بقُطْرُب (ت ٢٠٦ھ)، الناشر: مؤسسة الرسالة)

الصحاح میں ہے:

"وشعب الرأس: شأنه الذى يضم قبائله. وفى الرأس أربع قبائل. وتقول: هما ‌شعبان: أي مثلان. والشعب: الصدع في الشئ، وإصلاحه أيضا الشعب، ومُصْلِحُهُ الشَعَّابُ، والآلَةُ مِشْعَبٌ. وشَعَبْتُ الشئ: فرقته. وشعبته: جمعته، وهو من الأضداد. تقول: التَأَمَ شَعْبُهُمْ، إذا اجتمعوا بعد التَفَرُّقِ، وتفرق شعبُهُمْ، إذا تفرَّقوا بعد الاجتماع."

(الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية، ‌‌فصل الشين، 1/ 156، الناشر: دار العلم للملايين - بيروت)

ابو داؤد شریف میں ہے:

4948 - "حَدَّثَنَا ‌عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ: أَنَا، (ح)، وَنَا ‌مُسَدَّدٌ نَا ‌هُشَيْمٌ ، عَنْ ‌دَاوُدَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ ‌عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي زَكَرِيَّا ، عَنْ ‌أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُمْ ‌تُدْعَوْنَ ‌يَوْمَ ‌الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ."

(سنن أبي داود، (2/335)، ‌‌بَابٌ فِي تَغْيِيرِ الْأَسْمَاءِ ،كِتَابِ الْأَدَبِ، ط: رحمانیہ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وروى ابْن أبي شيبَة من مُرْسل عُرْوَة: كَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا سمع الإسم الْقَبِيح حوله إِلَى مَا هُوَ أحسن مِنْهُ. وَفِي الحَدِيث: إِنَّكُم تدعون يَوْم الْقِيَامَة بأسمائكم وَأَسْمَاء أبائكم، ‌فَأحْسنُوا ‌أسماءكم. وَقَالَ الطَّبَرِيّ: لَا يَنْبَغِي لأحد أَن يُسمى باسم قَبِيح الْمَعْنى وَلَا باسم مَعْنَاهُ التَّزْكِيَة والمدح وَنَحْوه، وَلَا باسم مَعْنَاهُ الذَّم والسب، بل الَّذِي يَنْبَغِي أَن يُسمى بِهِ مَا كَانَ حَقًا وصدقاً."

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب تحويل الإسم إلى إسم أحسن منه،  22/ 208، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں