بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والے کا حکم


سوال

صحابہ کے ایمان میں شک کرنے والے کے ایمان کا حکم؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے صحابہ کرام کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے بعد میں آنے والوں کی کامیابی کو ان پاکیزہ نفوس کی طرح ایمان لانے سے مشروط کیا ہے۔

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

" فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا."(البقرۃ:137)

ترجمہ:"اگر وہ  ایمان لائے جیسا کہ تم (اصحاب رسول) ایمان لائے ہو تو  وہ ہدایت پالیں گے۔"(بیان القرآن)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے بارے میں فرمایا کہ(جس کا ترجمہ یہ ہے ) :

"میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں، اُن میں سے جس کی بھی تم اتباع کروگے ہدایت پاؤگے۔"

پس صحابہ کرام میں سے کسی کی تنقیص کرنا یا  ان کے ایمان میں شک کرنا جب کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں (رضی الله عنهم  ورضواعنه)کا فرمان صادر کیا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہونا  ہے، اور شیخین کے علاوہ دیگر صحابہ کے ایمان میں شک کرنے  والا شخص اہلِ ضلال میں سے  اور گمراہ ہے، جب کہ حضراتِ شیخین(خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ)  کو گالی دینا اور حضرت ابوبکر صدیقِ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کفر ہے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عمر بن الخطاب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " سألت ربي عن اختلاف أصحابي من بعدي فأوحى إلي: يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضها أقوى من بعض ولكل نور فمن أخذ بشيء مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى " قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أصحابي ‌كالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم."

 (کتاب المناقب،باب مناقب الصحابۃ،1696/3،ط:المکتب الاسلامی)

 فتاوی شامی میں ہے:

" نقل عن البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يعلنها فهو كافر... و سب أحد من الصحابة و بغضه لا يكون كفراً لكن يضلل."

(کتاب الجہاد،باب المرتد،237/4، ط: سعيد)

المنہل الروی فی مختصر علوم الحدیث النبوی میں ہے:

"الثاني ‌الصحابة ‌كلهم عدول مطلقا لظواهر الكتاب والسنة وإجماع من يعتد به بالشهادة لهم بذلك سواء فيه من لابس الفتنة وغيره ولبعض أهل الكلام من المعتزلة وغيرهم في عدالتهم تفصيل واختلاف لا يعتد به وأفضلهم على الإطلاق أبو بكر ثم عمر بإجماع أهل السنة ثم عثمان ثم علي عند جمهورهم."

(‌‌النوع السادس في أدب طالب الحديث، ص: 112، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100858

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں