بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شبِ معراج میں حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے آسمانوں پر سیر کس سواری پر فرمائی؟


سوال

شبِ معراج میں حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے آسمانوں پر سیر کس سواری پر فرمائی؟

جواب

معراج میں نبی کریم ﷺنے مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک ایک براق پر سواری فرمائی، اور بیت المقدس سے آسمانوں کی سیر کے لیے  ایک روایت کے مطابق ایک سیڑھی کے ذریعے تشریف لے گئے تھے جو جنت کے زمرد اور زبرجد سے بنی ہوئی تھی، اور ایک قول یہ ہے کہ حسبِ سابق براق پر ہی سوار ہوکر آسمانوں کی جانب تشریف لے گئے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صعود الی السماء کے سلسلہ میں دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں، ایک قول کے مطابق براق پر ہی تشریف لے گئے تھے اور ایک قول کے مطابق جنت سے ایک خوبصورت سیڑھی لائی گئی اس کے ذریعے تشریف لےگئے تھے۔

معراج کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس سواری پر تشریف لے گئے تھے، یہ جاننا اہم نہیں ہے، معراج کے سفر میں جن مختلف احوال کا مشاہدہ کیا اور جو نماز کا جو تحفہ لے کر آئے،  اس کی پابندی کی ضرورت ہے۔

لوامع الأنوار البہیۃ میں ہے:

"ولما أراد صلى الله عليه وسلم ‌العروج ‌إلى ‌السماء بعد وصوله إلى البيت المقدس، وصلاته بالأنبياء عليهم السلام أتي بالمعراج الذي تعرج عليه أرواح الأتقياء من بني آدم، فلم تر الخلائق أحسن منه، له مرقاة فضة، ومرقاة من ذهب، وهو من جنة الفردوس منضد باللؤلؤ، عن يمينه ملائكة، وعن يساره ملائكة، فارتقى عليه هو وجبريل."

(الباب الخامس، فصل في بعض الخصائص النبوية، ج: 2، ص: 281، ط: مؤسسة الخافقين ومكتبتها - دمشق)

تفسیر ابنِ کثیر میں ہے:

"ثم ‌أتيت ‌بالمعراج الذي كانت تعرج عليه أرواح بني آدم فلم ير الخلائق أحسن من المعراج أما رأيت الميت حين يشق بصره طامحا إلى السماء، فإنما يشق بصره طامحا إلى السماء عجبه بالمعراج، قال: فصعدت أنا وجبريل."

(سورة الإسراء، ج: 5، ص: 20، ط: دار الكتب العلمية)

البدایہ والنہایہ میں ہے:

"‌والمقصود ‌أنه صلى الله عليه وسلم لما فرغ من أمر بيت المقدس نصب له المعراج، وهو السلم، فصعد فيه إلى السماء، ولم يكن الصعود على البراق، كما قد يتوهمه بعض الناس، بل كان البراق مربوطا على باب مسجد بيت المقدس ; ليرجع عليه إلى مكة، فصعد من سماء إلى سماء في المعراج حتى جاوز السابعة."

(فصل في الإسراء برسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى بيت المقدس، ج: 4، ص: 276، ط: دار عالم الكتب - الرياض)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں