بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شب معراج کی عبادت


سوال

شبِ معراج کی تاریخ اور عبادت صحیح نہیں؟ اگر کوئی کر رہا ہے یہ بدعت حسنہ ہے یا اس عبادت کو معراج کی نیت سے کرنا گناہ ہوگا؟ کیوں کہ یہ بدعت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حتمی طور پر یہ بات طے نہیں ہے کہ معراج کس مہینہ اور کس شب میں پیش آئی، اس حوالے سے مختلف اقوال منقو ل ہیں، اپنی طرف سے یقینی طور پر متعین کرکے کسی رات کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں ہے، عوام میں مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں رات ہے۔ تاہم اس شب میں خصوصیت سے کوئی الگ نماز  یا عبادت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور خصوصیت کے ساتھ  اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا اور لوگوں کو ترغیب دینا درست نہیں۔
    لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں ۲۷ رجب کو حتمی طور پر شب ِمعراج کہنا درست نہیں، بلکہ شبِ معراج کے بارے میں چند اقوال منقول ہیں:
  بعض نے ۱۲ ربیع الاول، بعض نے ۱۷ ربیع الاول، بعض نے ۲۷ ربیع الاول، بعض نے ۱۷ ربیع الآخر، بعض نے ۲۷ ربیع الآخر، بعض نے ۲۷ رجب، بعض نے ۱۷ رمضان، بعض نے ۲۷ رمضان اور بعض نے ۲۷ شوال کو شبِ معراج قرار دیا ہے۔
  ان اقوالِ کثیرہ میں سے کسی تاریخ کے لیے کوئی وجۂ ترجیح نہیں، چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’وقد اختار الحافظ عبد الغني بن سرور المقدسي في سیرته أن الإسراء کان لیلة السابع والعشرین من رجب وقد أورد حدیثًا لایصح سنده، ذکرناه في فضائل شهر رجب‘‘.  (البدایة والنہایة، ج:۳،ص:۱۰۹)
    اسی طرح اس رات میں کوئی خاص عبادت بھی مشروع نہیں۔ اس رات کو عبادت کی رات سمجھنا اور ا س رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ متعین کرنا اور اُسے مسنون سمجھنا شریعت کے مطابق نہیں، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص پہلے سے رات کی عبادت کرتاہو اور پیر کے دن روزہ رکھتاہو اور اس رات بھی معمول کے مطابق عبادت کرے اور پیر کا روزہ  رکھے، (اس سال 27 رجب پیر کو ہے) تو اس کی اجازت ہوگی۔ اسی رات اور دن کو مخصوص کرکے عبادت کرنا درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں