بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شب برات اور شب معراج اور طاق راتیں میں جاگنے اور کھانے پکانے،اور بیان کرنے کا حکم


سوال

 جس طرح آج کل شب برات اور شب معراج اور طاق راتیں میں جاگنے اور کھانے پکانے اور بیانوں کا سلسلہ ہے ، ہر سال لازمی کرنا اس کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شبِ برات ، شب ِمعراج،اور طاق راتوں سے متعلق الگ الگ جواب لکھا جاتا ہے :

شبِ براءت :واضح رہے کہ شبِ برات کی فضیلت اور اہمیت اور اس میں   عبادت کرنا ثابت ہے ،اور پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا مستحب ہے ،  البتہ اس   دن میں خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانا اور  تقسیم کرنا چوں کہ ثابت نہیں؛ اس لیے اس کا اہتمام و  التزام کرنا (ثواب کا باعث سمجھنا، اور نہ کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا) بدعت ہے۔ اگر مقصود مرحومین  کوایصالِ ثواب کرناہو تو  اس کے لیے کسی مہینے یا دن کا انتظارنہیں کرناچاہیے، بلکہ کسی بھی دن جو میسر ہو صدقہ کرکے اس کا ثواب بخش دیاجائے،معروف دن میں نہ کرے۔

2)شبِ معرج  :اس طرح  شبِ  معراج  میں بھی خصوصیت کے ساتھ جاگنے کو لازم اور سمجھنا ،اور اس میں کھانے  پکانے کااہتمام کرنا اور نہ کرنے والو ں کو برا کہنا اور سمجھنا،یہ سب امور  بدعت کے زمرے میں آتے ہیں ،اس لیے  اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

طاق راتوں میں جاگنا :(۱) رمضان کی طاق راتوں میں اجتماعی طور پر عبادت،دعاء، بیان ذکر وتلاوت وغیرہ کا اہتمام والتزام کرنا درست نہیں، ان راتوں میں انفرادی طور پر کثرت سے عبادت کرنی چاہیے، کیونکہ یہ اعمال ازقبیل نوافل ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نمازوں کے علاوہ جن کا باجماعت ادا کرنا ثابت ہے، دیگر عبادات نوافل وغیرہ سخت مجبوری کے باوجود گھر میں ادا کرتے تھے، البتہ اگر مسجد میں عبادت، تلاوت وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا گیا، بلکہ اتفاقاً لوگ مسجد میں آکر تلاوت قرآن، نماز اور ذکر کرنے لگے تو اس کی گنجائش ہے، البتہ گھر میں ان اعمال کا کرنا زیادہ ثواب کا کام ہے۔

بیانات کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  بیانات کو ان راتوں کا حصہ سمجھنایااس طرح کے مواقع پر سنت قرار دینایاشرکت نہ کرنے والوں کو ملامت کرنا غلط ہے ، اس صورت میں یہ عمل بجائے ثواب کے بدعت کے زمرے میں داخل ہوسکتاہے ، البتہ ان طاق راتوں میں بیانات کو اگر سنت یا لازم نہ سمجھا جائے اور کسی قسم کی بدعات نہ ہو تو جائز ہے۔

 مشکاۃالمصابیح میں ہے :

"إياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة ‌بدعة وكل ‌بدعة ضلالة» . رواه أحمد."

(كتاب الاِيمان ،باب الاعتصام بالكتاب السنة ،ج،1 ،ص، 58 ،ط :دارالمعرفة)

فتح الباری میں ہے :

"المحدثه" والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا".

(باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج، 13، ص، 253 ،ط: دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكل مباح ‌يؤدي إلي  السنة اوالواجب فمكروه."

(باب صلاۃ المریض ،2 ،ص ،105 ،ط :سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

" مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالبا من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم."

(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ الجنازۃ،2/ 240، ط : سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"وأما المبتدع فهو صاحب البدعة وهي كما في المغرب اسم من ابتدع الأمر إذا ابتدأه وأحدثه كالرفقة من الارتفاق والخلفة من الاختلاف ثم غلبت على ما هو زيادة في الدين أو نقصان منه اهـ.

وعرفها الشمني بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال ‌بنوع ‌شبهة ‌واستحسان وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما ."

(ج:1، ص:370، ط: دارالکتاب الاسلامي)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك.

ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية."

(الباب الاول فی تعریف البدع،ج:1،ص:53،ط:دار ابن عفان،سعودیہ)

جامع العلوم والحکم لابن رجب حنبلی میں ہے:

"فقوله - صلى الله عليه وسلم -: "كل بدعة ضلالة" من جوامع الكلم لا يخرج عنه شيء، وهو أصل عظيم من أصول الدين، وهو شبيه بقوله - صلى الله عليه وسلم -: "‌من ‌أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو رد".

فكل ‌من ‌أحدث شيئا ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة، والدين بريء منه، وسواء في ذلك مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة."

(الحدیث الثامن والعشرون ،ج:2،ص:783،ط:دار السلام ،قاھرۃ)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔

(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”ماہ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔

(فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

”27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔“

(سات مسا ئل صفحہ:5)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں