بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شب براءت میں بیری کے پتے پانی میں ڈال کر نہانے کا حکم


سوال

شبِ براءت  میں  بیری کے پتوں سے نہانے کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

خاص  شب برأت کوبیری کے پتے پانی میں ڈال کرثواب کی نیت  سے نہانا  بدعت ہے ،کسی  حدیث  ،فقہ اورتفسیرکی  کتاب  میں اس عمل کا ذکرنہیں ہے،البتہ علاج اورصفائی میں مبالغہ کے طور بلا تعیین  کسی بھی وقت استعمال کرسکتے ہیں ، جس طرح کے صاحب عمدۃ القاری نے اپنی کتاب میں اس کاذکرکیا ہے اور حائضہ   حیض سےپاکی کے بعد  اورمیت کوغسل دینے اورصفائی میں مبالغہ کے خاطرپانی میں بیری کے پتے شامل کرنے  کاذکرآیاہے،لیکن یہ شب برأت کےساتھ خاص نہیں ہے،لہذاان دوجہت کےاعتبارسےبیری کےپتےپانی میں ڈال کر  کسی وقت  استعمال کرسکتے ہیں،شب برأت میں غسل کو بیری کےپتوں کےساتھ مخصوص کرنابالکل بےبنیاد  اور من گھڑت بات ہے ،  اس کےباعث ثواب وبرکت ہونےکےبارے میں کوئی   دلیل شرعی نہیں ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وفي كتب وهب بن منبه: أن يأخذ ‌سبع ‌ورقات من سدر أخضر فيدقها بين حجرين ثم يضربها بالماء، ثم يقرأفيه آية الكرسي وذوات: قل، ثم يحسو منه ثلاث حسوات ويغتسل به، فإنه يذهب عنه كل عاهة وهو جيد للرجل إذا حبس عن أهله."

(عمدۃ القاری ،باب هل يستخرالسحر،ج:21،ص:282،ط:دارالاحياءالتراث العربي،بيروت.)

بذالمجہود میں ہے:

"عن صفية بنت شيبة، عن عائشة قالت: دخلت أسماءعلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فقالت: يا رسول الله، كيف تغتسل إحدانا إذا طهرت من المحيض؟ قال: تأخذ سدرها وماءها) والسدر: شجر النبق، ومعنى الكلام أنها تأخذ الماء الذي أغلي فيها ‌أوراق ‌السدر، وإنما أمرها به للمبالغة في التنظيف، لأنه يطيب الجسد."

(بذالمجہودفی حل سنن ابی داود،باب الاغتسال من الحیض ،ج:2،ص:122،ط:مرکزالشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الاسلامیہ الہند)

ایضاً:

"حدثنا هدبة بن خالد، نا همام، نا قتادة، عن محمد بن سيرين، أنه كان يأخذ الغسل) أي يتعلم غسل الميت (من أم عطية: يغسل بالسدر) أي بالماء الذي تغلى فيه ‌أوراق ‌السدر (مرتين، والثالثةَ بالماء والكافور) أي بالماء الذي يلقى فيه الكافور."

(بذالمجہود فی حل سنن ابی داود،باب فی الکفن ،ج:10،ص:424،ط:مرکزالشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث  والدراسات الاسلامیہ الہند) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں