بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شبِ براءت کے بارے میں حدیث:’’ تم رات میں نماز پڑھو اور دن میں روزہ رکھو‘‘ کی تحقیق


سوال

ہمارے  ہاں شب براءت کے بارے میں جو حدیث مشہور ہے،یعنی ’’ تم رات میں نماز پڑھو اور دن میں روزہ رکھو ‘‘۔اس کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کے متعلق دریافت کیا ہے، یہ حدیث "سنن ابن ماجه"ودیگر کتبِ احادیث میں موجود ہے، "سنن ابن ماجه"کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"عن عليِّ بن أبي طالبٍ-رضي الله عنه- قال: قال رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم -: "إذا كانتْ ليلةُ النصف من شعبانَ فقومُوا ليلَها وصومُوا نهارَها، فإنّ الله ينزِلُ فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: أَلا من مستغفِرٍ لي فأغفِرَ له، أَلا مسترزِقٍ فأرزُقَه، أَلا مُبتلًى فأُعافيَه، أَلا كذا أَلا كذا، حتّى يطلعَ الفجرُ".

(سنن ابن ماجه، أبواب إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، ج:2، ص:399، رقم:1388، ط:دار الرسالة العالمية)

 ترجمہ:

’’ حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا:جب نصف شعبان کی رات ہو تو  اس رات کو عبادت کرو اور دن كوروزہ رکھو؛ اس لیے کہ اُس راتمیں اللہ تعالیغروبِ شمس سے طلوعِ فجر تک آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان فرماتے  ہیں :ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اس کی مغفرت کروں!  ہے کوئی روزی کا طلب گار  کہ میں اس کو روزی دوں! ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اس کو عافیت دوں  ! ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا!(یوں اللہ تعالی مختلف اعلانات فرماتے ہیں) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے‘‘۔

اگرچہ مذکورہ حدیث  کی سند پر کلام کیا گیا ہے، لیکن   بہت سے محققین کے نزدیک  یہ حدیث    قابلِ عمل  ہے۔محدثِ کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’پندرہویں شعبان کے روزے کے بارے میں جوحدیث ’’ابنِ ماجہ‘‘ میں آئی ہے،وہ ’’موضوع‘‘ نہیں ہے،کسی ماہرِ حدیث عالم نے اس کو’’ موضوع ‘‘نہیں کہا ہے ۔۔۔ اِس حدیث کے راویوں میں ’’ابوبکر بن ابی سبرہ‘‘ ضرور ہے ، اُس کی نسبت بے شک یہ کہاجاتاہے کہ وہ حدیثیں بناتا تھا، لیکن اُس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زیرِبحث حدیث اُس کی بنائی ہوئی اور ’’موضوع‘‘ ہے، محض اس بناپر کہ سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہے، اُس سے تو بس اِتنا لازم آئے گاکہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔یہی وجہ ہے کہ جن حضرات نے’’ سنن ابنِ ماجہ‘‘ کی’’ موضوع‘‘ احادیث کی نشان دہی کی ہے، اُن میں اِن احادیث کا ذکر نہیں ملتا۔"ماتمسّ إليه الحاجة"(از مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ)  میں وہ ساری حدیثیں مذکور ہیں ، جس کا جی چاہے دیکھ لے۔اصولِ حدیث وغیرہ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ یہ تصریح مل سکتی ہےکہ کسی حدیث کی سند میں کوئی کذاب یاوضّاع راوی پایا جائے، تو محض اتنے سے وہ حدیث موضوع نہیں ہوجائے گی،جب تک کہ دوسری کوئی دلیل اس کے موضوع ہونے پر دلالت نہ کرے۔مثال کے طور پر  (فتح المغیث:۱/۲۵۱ ) ملاحظہ کیا جائے، امام بخاریؒ لکھتے ہیں:

"هذا مع أنّ مجرد تفرّد الكذّاب بل الوضّاع، ولو كان بعد الاستقصاء في التفتيش مِن حافظٍ متبحّرٍ تامِّ الاستقراء غير مُستلزمٍ لذلك، بل لا بدّ معه مِن انضمام شيءٍ مما سيأتي". ۔۔۔

سطورِ بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہے کہ روایتِ فضیلت ِصومِ شعبان میں ابوبکر بن عبد اللہ راوی’’ واضع الحدیث ‘‘تھا، اس لیے یہ روایت’’ موضوع ‘‘ٹھہری ،بالکل غلط ہے". 

(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے:  مقالات ابوالمآثرمؤلفه ، جلد دوم ، پندرہویں شعبان کی حدیث ،ص:۷۸۔۸۲، دار الثقافۃ الاسلامیۃ، مئو،یوپی۲۰۱۴ء) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں