بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شب براءت کی حقیقت


سوال

شب براءت کی کیا حقیقت ہے ؟

جواب

شعبان کی پندرہویں شب کو شب برأت کہتے ہیں، برأت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالی  کی طرف سے عام مغفرت کا اعلان کیا جاتا ہے اور مخلوق کو گناہوں سے معاف  کردیا جاتا ہے۔

متعدد روایات میں اس رات کی فضیلت وارد ہوئی  ہے۔

ذیل میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1۔"عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كانت ‌ليلة ‌النصف ‌من ‌شعبان، فقوموا ليلها، وصوموا نهارها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر له، ألا مسترزق فأرزقه، ألا مبتلى فأعافيه، ألا كذا ألا كذا، حتى يطلع الفجر."

(سنن ابن ماجه،‌‌ أبواب إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان،ج:2، ص:399، ط: دار الرسالة العالمية)

"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے  منقول ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب نصف شعبان کی رات ہو(يعنی  شب بر أت )تو رات میں نماز پڑھو  ا د ر اس کے  دن میں  روز رکھو، اس لئے کہ اللہ جل شانہ  اس رات میں آفتاب چھپنے کے وقت   آسمان دنیا پر نزول فرماتا  (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتاہے) اور( دنیا والوں سے فرماتا ہے)   کہ آگاہ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ!  ہے کوئی رزق مانگنے والا  کہ میں اسے رزق دوں؟  ہے کوئی  گرفتارمصیبت   کہ میں اسے   عافیت بخشوں؟   ہے کوئی ایسا اور  ایسا ؟ ( یعنی اس طرح اللہ تعالی ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کراپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے ، مثلا فرماتا ہے کوئی مانگنے والا کہ میں عطا کروں؟ کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی اور مسرت کے خزانے بخشوں ؟ وغیرہ وغیرہ)  یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔"  (مظاہر حق)

2."عن عائشة، قالت: فقدت النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فخرجت أطلبه، فإذا هو بالبقيع، رافع رأسه إلى السماء، فقال: "يا عائشة، أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله؟ " قالت: قد قلت، وما بي ذلك، ولكني ظننت أنك أتيت بعض نسائك، فقال: "إن الله تعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب."

(سنن ابن ماجه،‌‌ أبواب إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان،ج:2، ص: 400، ط: دار الرسالة العالمية)

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ (اپنی باری میں ) رات کو  میں نے سرتاج  دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو   بستر پر نہ   پایا، جب ميں نے  تلاش كيا تو يكايك كيا  دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع میں موجود هيں ،(مجھے ديكھ كر ) آپ نے فرمایا: اے  عائشہ ! کیا تمہیں اس بات كا خوف تها  کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر  ظلم کریں گے ؟  میں نے عرض کیا:  مجھے  ایسا کوئی خیال نہ تھا بلکہ میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی اہلیہ کے ہاں  گئے ہوں گے۔ تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمان دنیا (يعنی پہلے آسمان )پر نزول فرماتا ہے اور قبيله  بنو کلب (کی بکریوں) كے ريوڑ كے بالوں سے بھی زیاده تعداد ميں گناه بخشتا ہے۔"(مظاهر حق)

3."عن أبي موسى الأشعري، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه، إلا لمشرك أو مشاحن."

(أيضاّ)

"حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے  راوی ہیں  کہ سرتاج دو عالم  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (یعنی شب برأت) میں دنیا والوں کی طرف متوجہ ہوتا  ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی  تمام مخلوق کی بخشش فرما تا  ہے۔" (مظاہر حق)

مذکورہ روایات اور دیگر احادیث سے اس رات کی اہمیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، لہذا اس رات کو  انفرادی عبادت میں گزارنا اور اگلے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔

العرف الشذی میں ہے:

"هذه الليلة ليلة البراءة وصح الروايات في فضل ليلة البراءة، وأما ما ذكر أرباب الكتب من الضعاف والمنكرات فلا أصل لها."

(باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، ج:2، ص 172، ط: دار التراث العربی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والحاصل أن هذا الوقت زمان التجليات الرحمانية، والتنزلات الصمدانية، والتقربات السبحانية الشاملة للعام والخاص، وإن كان الحظ الأوفى لأرباب الاختصاص، فالمناسب الاستيقاظ من نوم الغفلة والتعرض لنفحات الرحمة."

‌‌(باب قيام شهر رمضان، ج:3، ص:964، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں