بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شب براءت کے موقع پر معافی مانگنا


سوال

آج کل شبِ برأت میں معافی مانگنے کا رواج چل پڑا ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ درست ہے؟

جواب

شبِ براءت اور اسی طرح مختلف مواقع پر آج کل میسج وغیرہ کے ذریعہ ایک رسمی معافی نامہ بھیجنے کا رواج ہوگیا ہے، اس طرح کے معافی نامہ بھیجنے سے عام طور پر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا، کیوں کہ بھیجنے والا بھی اس طرح کا معافی نامہ بطور ایک رسم کے بھیجتا ہے، چناں چہ یہ میسج ہر ایک کو بھیج دیا جاتاہے، اس کا مقصود حقیقت میں معافی مانگنا نہیں ہوتا، اور جس کو بھیجا جاتا ہے اسے بھی پتا ہوتا ہے کہ معافی نامہ بھیجنے والے کا مقصد معافی وغیرہ مانگنا نہیں ہے، بلکہ ایک رسم کی ادائیگی ہے، اس لیے اس طرح کے میسج بھیجنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ذہن پر زور دے کریاد کرنا چاہیے  کہ ہم نے کس کس کو ناراض کیا ہوا ہے اور پھر ہوسکے تو اس کے پاس جاکر باقاعدہ معذرت کر کے دل سے اس سے معافی مانگ کر اس کو راضی کرنا چاہیے، اگر کسی شخص کے دور ہونے کی وجہ سے اس کے پاس جانا مشکل ہو تو پھر موبائل پر فون یا میسج کر کے اس سے باقاعدہ معذرت کر کے معافی مانگی جائے تو یہ صورت بھی مفید ہے، لیکن صرف بطور رسم ہر ایک کو معافی نامہ بھیجنے سے معافی کی اہمیت اور اثر باقی نہیں رہتا، جس کا اندازا ایسے مواقع کے گزرتے ہی ہوجاتاہے کہ دلوں میں وہی دوریاں باقی رہتی ہیں، اور موقع ملتے ہی دل کی کسک بھی نکال لی جاتی ہے۔ 

معاف کرنے  اور معافی مانگنے کی شریعت میں ترغیب ہے، لیکن اس کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہے، بلکہ جس وقت غلطی ہو اسی وقت معافی مانگ لینی چاہیے، زندگی موت کا پتا نہیں ہے، اور جو شخص جس وقت مرجائے اسی وقت اس کی قیامت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں