بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی میں والدین کے طے کیے ہوئے رشتے کو ترجیح دینا چاہیے


سوال

 اگر کسی لڑکی سے پوچھا گیا ہو کہ کیا تمہیں فلاں لڑکا پسند ہے؟ کیا تمہاری شادی اس سے کرا دی جائے؟ اس وقت لڑکی کا جواب ہاں تھا، لیکن اب وہ کسی اور کو پسند کرتی  ہے اور شادی بھی اسی سے ہی کرنا چاہتی ہے۔ تو کیا والدین کو اس کی پسند پر اعتراض کرناچاہیے یا اس کی شادی وہاں کرانے چاہیے جہاں وہ چاہتی ہو؟اور کیا لڑکی کی پسند تبدیل ہونے پر اسے برا بھلا کہیں گے؟

جواب

شریف اور مہذب گھرانے کا دستور ہے کہ لڑکی اور لڑکے  کے والدین نکاح کے تمام معاملات سنبھالتے ہیں، جب کہ دوسری جانب شریعت نے والدین کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ بالغ لڑکی  اور لڑکے سے نکاح کی اجازت لیں، جب تک دونوں اجازت نہ دیں تو  نکاح منعقد نہیں ہوتا۔شریعت نے  لڑکے اور لڑکی کو اپنی رائے کے استعمال کا حق دیا ہے،لیکن اس  رائے کے استعمال کا یہ مطلب بھی نہیں ہے جب والدین اس سے اجازت لیں تو ایک وقت میں ایک کے ساتھ نکاح کی رضامندی ظاہر کریں  اور دوسرے وقت میں پہلے رشتے کو ٹھکرا دیں اور کسی اور کو پسند کر لیں، یہ شریف، مہذب اور باعزت گھرانوں  کی اولاد کا شیوہ نہیں ہے، اپنے  خاندان والوں کی عزت کا  لحاظ رکھنابھی ضروری ہے،  بہر حال یہ حرکت ناپسندیدہ ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ لڑکی نے ابتداءً اجازت کے وقت جس لڑکے سے شادی کا اظہار کیا تھا اسی کے ساتھ شادی کرنا بہتر ہے، اس میں ہی اس کے لیے خیر ہوگی، اس میں والدین کی رضامندی بھی ہے اور والدین کی عزت کی پاسداری بھی ، لہذا اسی رشتے میں اپنے لیے بہتری سمجھیں جس سے متعلق  ابتداءً رضامندی ظاہر کی تھی  اور والدین بھی اس پر راضی ہیں، ورنہ کل کو کوئی اور رشتہ پسند آ جائے گا تو پہلے کو چھوڑ کر اس کی طرف رغبت ظاہر کر دی جائے گی جو شریف خاندان کی بچیوں کا شیوہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة لا) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى (تلد منه). 

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة."

(كتاب النكاح، باب الولي،3/ 55 ،56، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


 


فتوی نمبر : 144310101449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں