بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی میں تاخیر کرنے کا گناہ کس پر ہے؟


سوال

میری عمر ،36سال ہے اور میں ڈاکٹر ہوں اس لیے گھر کا خرچہ نکل جاتا ہے،  ماں باپ میری شادی نہیں کرواتے،  جب بھی کوئی  رشتہ آتا ہے وہ سمجھتے ہیں فراڈ ہے،  اور نہ ہی کسی کے گھر جاتے  ہیں ، اگر کوئی لڑکی والے بلائیں تو انکار کر دیتے ہیں اب کوئی گناہ ہوگیا تو اس کا وبال مجھ پر کیوں ہوگا؟

جواب

شریعت مطہرہ نے انسانیت کو جنسی بے راہ روی سے بچانے اور  پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل کے لئے  نکاح کا حلال راستہ متعین فرماتے ہوئے  ایک طرف ایسے افراد کو نکاح کا حکم دیا ہے، جو اپنی بیوی کے  نان و نفقہ ، رہائش  او ر پوشاک کی ذمہ داری  اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں،  دوسری طرف بلوغت کے بعد   نکاح کرانے میں تاخیر کرنے  سے والدین کو  منع کیا ہے،  تاخیر کے نتیجہ میں جنسی تسکین کے حصول کی خاطر  اگر اولاد کسی گناہ میں  مبتلا ہوگی تو اس کا گناہ والد کے سر قرار دیا گیا ہے، لہذا صورت  مسئولہ میں سائل اگر اپنی بیوی کی ذمہ داریاں اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے، تو والدین پر لازم ہے کہ بلا تاخیر اس کا نکاح کردیں، نہ کرنے کی صورت میں سائل اگر کسی گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو سائل کے گناہ گار ہونے کے ساتھ ساتھ والد بھی  گناہ گار ہو گا۔

مسئولہ صورت میں  والد کے گناہ گار ہونے کے ساتھ ساتھ سائل بھی گناہ گار ہوگا،  نکاح کرانے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے والد چونکہ اولاد کو گناہ میں مبتلاء کرنے کا سبب بنتا ہے، جس کا گناہ اس کے سر ہوگا، جبکہ حرام فعل کے ارتکاب کی وجہ سے سائل گناہ گار ہوگا،نيز سائل از خود بھی اپنی پسند سے نکاح کر سکتا ہے۔

صحيح البخاري میں ہے:

"٥٠٦٦ - حدثنا ‌عمر بن حفص بن غياث: حدثنا ‌أبي: حدثنا ‌الأعمش قال: حدثني ‌عمارة، عن ‌عبد الرحمن بن يزيد قال: «دخلت مع علقمة والأسود على عبد الله، فقال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شبابا لا نجد شيئا، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وجاء."

( كتاب النكاح، باب من لم يستطع الباءة فليصم، ٧ / ٣، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ: عبدالرحمٰن بن یزید سے مروی ہے کہ: " میں، علقمہ اور اسود (رحمہم اللہ) کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی (بوجہ غربت) طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔

سنن الترمذی میں ہے:

"١٧١ - حدثنا ‌قتيبة ، قال: حدثنا ‌عبد الله بن وهب ، عن ‌سعيد بن عبد الله الجهني ، عن ‌محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب ، عن ‌أبيه ، عن ‌علي بن أبي طالب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا علي،» ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا".

( أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ١ / ٢١٣،ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: "حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے  ان سے فرمایا:  " اے علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب آجائے، او عورت (کے نکاح میں ) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)  مل جائے۔"

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه."

( كتاب النكاح، باب الولى فى النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ٢ / ٩٣٩، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: حضرت ابو سعيد اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:   جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد، قال الطيبي - رحمه الله -: أي جزاء الإثم عليه حقيقية ودل هنا الحصر على أن لا إثم على الولد مبالغة لأنه لم يتسبب لما يتفادى ولده من أصابه الإثم."

( كتاب النكاح، باب الولى فى النكاح واستئذان المرأة، ٥ / ٢٠٦٤، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"زجر وتوبيخ، لا أنه لا إثم على الفاعل، كذا في "التقرير".

( كتاب النكاح، باب الولى فى النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ٦ / ٤١، ط: دار النوادر، دمشق - سوريا)

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

"٨٣٠٢  -  حدثنا أبو عبد الرحمن السلمي، أخبرنا أحمد بن محمد بن عبدوس، حدثنا عثمان بن سعيد، حدثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي، حدثنا بشر بن بكر، حدثنا أبو بكر بن أبي مريم الغساني، عن أبي المجاشع الأزدي، عن عمر بن الخطاب، عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "مكتوب في التوراة: من بلغت له ابنة اثنتي عشرة سنة فلم يزوجها فركبت إثما، فإثم ذلك عليه".

( الستون من شعب الإيمان "وهو باب في حقوق الأولاد والأهلين"، ١١ / ١٣٨ - ١٣٩، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔

فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوی میں ہے:

"٨١٩٩ - (مكتوب في التوراة من بلغت له ابنة اثنتي عشرة سنة فلم يزوجها فأصابت إثما) يعني زنت فإثم ذلك عليه لأنه السبب فيه بتأخير تزويجها المؤدي إلى فسادها. وذكر الاثنتي عشرة سنة لأنها مظنة البلوغ المثير للشهوة."

( حرف الميم، ٦ / ٣، ط: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100587

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں