بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی میں اپنی پسند دیکھی جائے یا والدین کی؟


سوال

اگر لڑکی نکاح نہیں کرنا چاہتی، لیکن والدین کہتے ہیں کہ ہماری عزت کا سوال ہےتو والدین کی عزت دیکھنی چاہیئے يا  اپنی پسند؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح اولاد کے ذمے والدین کی مرضی اور خواہش کی رعایت رکھنا لازم ہے اسی طرح والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اولاد کے نکاح کے وقت اپنی اولاد کی پسند کا خیال رکھیں اور ان سے ان کی رائے معلوم کریں،اگر انہیں وہ رشتہ پسند نہ ہو تو شرعا والدین کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انہیں کسی ایسی جگہ نکاح پر مجبور کریں جوانہیں ناپسند ہو ،خاص کر جب ناپسندیدگی کسی شرعی وجہ کی بناء پر ہو۔نیز اگربالغ اولادکی رضامندی کے بغیر نکاح کر بھی دیا گیا اورلڑکے یا لڑکی نے قبول نہیں کیاتو وہ ان کی اجازت پر موقوف رہے گا،بغیر ان کی اجازت کے نکاح نافذ نہیں ہوگا،اس لیے مذکورہ صورت میں آپ کے والدین کا آپ پر اس رشتے کے حوالے زبردستی کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

تاہم عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجۃً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائے دار ثابت ہوتے ہیں،شریعت نے بھی یہی تعلیم دی ہے اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  یہ بوجھ خود  اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ نیز شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے اپنی پسند کو ہی دیکھنا   نعمتِ خداوندی  کی ناقدری ہے، اگر اس رشتے میں کوئی شرعی اور اخلاقی قباحت نہیں تو والدین کی پسند کو ملحوظ رکھنا بہتر  اور عقلمندی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن)".... وفی الرد:(قوله وهو السنة) بأن يقول لها قبل النكاح:فلان يخطبك أويذكرك فسكتت، وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها،بحر عن المحيط".

(الدر المختار مع رد المحتار،58/3، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں