بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے تین ماہ بعد بیوی کا خلع کا مطالبہ کرنا اور شوہر کا خلع کے بدلہ میں مال لینا


سوال

 اگر کوئی بیوی شادی کے پہلے  تین مہینے گزرنے کے بعد  اپنے شوہر کے ساتھ مزید زندگی کرنے پر آمادہ نہ ہو اور نکاح سے علیحدگی چاہتی ہو تو شرعی اعتبار سے کیا حکم هے؟ اور عورت  خلع کا مطالبہ کرتی ہو، لیکن مرد خلع دینے پر کسی صورت راضی نہ ہو بشرطیکہ شوہر اس بات پر خلع کے لیے  راضی ہو کہ میں نے تم سے شادی کے لیے جو اخراجات آئے ہیں، اس رقم کو بمعہ حقِ مہر لوٹانے کی شرط پر مرد خلع دینے پر رضامندی ظاہر کرے؛ کیوں کہ شوہر دوسری شادی کے لیے  صاحبِ حیثیت نہ ہو اور شوہر دوسری شادی کے لیے  مزید اخراجات اٹھانے سے قاصر ہو تو شرعی رو سے مرد کے لیے کیا حکم هے؟ کہ شوہر کا یہ مطالبہ جائز هے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کاشدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت  بغیر کسی مجبوری کے  اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

         سنن أبي داود  میں ہے:

عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة».

 (1/310، باب الخلع، ط؛ حقانیہ)

اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے، بلاوجہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کرے، اگر کبھی کوئی ناخوش گوار بات پیش آجائے تو اس پر صبر کرے، شوہر کے حقوق کی رعایت کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے حقوق کی رعایت کرے، اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو باہم حل نہ ہورہا ہوتو خاندان کے بڑے اور معزز لوگوں سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے، یعنی جس قدر ہوسکے رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور دونوں میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ایسی صورت میں عورت خلع لے سکتی ہے۔

 ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]

ترجمہ: سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی  گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔ (از بیان القرآن)

اس سے یہ  بھی معلوم ہوا کہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعًا ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہخلع مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، خلع کے   مفہوم میں  ہی یہ بات داخل ہے کہ وہ  شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی سے انجام پائے،  جیساکہ علامہ ابو الفتح  برہان الدین المطرزی (المتوفی 610ھ؁)اپنی کتاب ”المغرب “میں لکھتے ہیں :

 (وخالعت) المرأة زوجها (واختلعت منه) إذا افتدت منه بمالها فإذا أجابها إلى ذلك فطلقها قيل: خلعها.

 (المغرب في ترتيب المعرب (ص: 151) باب الخاء المعجمہ، الخاء مع اللام، ط: دار الکتاب العربی)

یعنی ”خالعت المرأة“ اور” اختلعت المرأة“ کے الفاظ  اس وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب عورت اپنی آزادی کے لیے کوئی فدیہ پیش کرے، پس اگر شوہر اس کی پیشکش  کو قبول کرلے اور طلاق دے دے تو کہا جاتا ہے کہ خلعها(یعنی مرد نے عورت کو خلع  دے دی)۔

باقی  اگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات و ناچاقی کا سبب شوہر ہو تو ایسی صورت میں دیانةً خلع کے عوض میں شوہر کے لیے کچھ لینا حلال نہیں، تاہم اگر وہ پھر بھی مہر  واپس لے لیتا ہے تو اس پر اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، اور اگر  شوہر کی طرف سے کوتاہی نہ ہو اور ناچاقی و اختلاف کا سبب بیوی ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے دیانۃً مہر کے طور پر دیے گئے مال سے زیادہ وصول کرنا مکروہ ہے، تاہم اگر زیادہ مال لے لیا تو شوہر اس کا مالک ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَا تَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.

وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ.

( الْبَابُ الثَّامِنُ فِي الْخُلْعِ وَمَا فِي حُكْمِهِ ،الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي شَرَائِطِ الْخُلْعِ وَحُكْمِهِ، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144201201321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں