بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سٹی کی تعمیر میں ملازمت کی شرعی حیثیت


سوال

سٹی کی تعمیر میں ملازمت کرنا جائز ٹھہرے گا؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی جگہ ملازمت کے جائزہونے کا مداردوباتوں پرہے : 

(1)کام کی نوعیت کیاہے؟یعنی ملازم کے حصے میں جوکام ہے وہ کام شرعی نقطہ نگاہ سے جائزہے یانہیں ؟ اگروہ کام شرعی نقطہ نگاہ سے جائزہے توایسی ملازمت بھی جائزہے اوراگرملازمت کسی ناجائزکام کی ہےتوایسی نوکری بھی ناجائزہوگی۔

(2)جائزخدمت کے عوض ملازم کو جوتنخواہ دی جاتی ہے یہ بھی ضروری ہے کہ تنخواہ بھی حلال مال سے دی جائے اس لیےکہ جائز کام پربھی تنخواہ مال حرام سے لیناجائزنہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگرسٹی کی تعمیرمیں کوئی شرعی  خرابی نہ  ہوتوایسی صورت میں سٹی کی تعمیرمیں ملازمت کرناجائزہوگا، باقی سائل اگر کسی خاص وجہ سے سوال کر رہا ہے، تو  اپنا مکمل وضاحت کے ساتھ بھیج کر فتوی حاصل کریں۔ 

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال: الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي إملاء: اعلم أن ‌الإجارة ‌عقد على المنفعة بعوض هو مال والعقد على المنافع شرعا نوعان أحدهما: بغير عوض كالعارية والوصية بالخدمة والآخر: بعوض وهو الإجارة وجواز هذا العقد عرف بالكتاب والسنة) أما الكتاب فقوله تعالى {ورفعنا بعضهم فوق بعض درجات ليتخذ بعضهم بعضا سخريا} [الزخرف: 32] أي في العمل بأجر وقال: الله تعالى حكاية عن شعيب عليه السلام {على أن تأجرني ثماني حجج فإن أتممت عشرا فمن عندك}(القصص: 27)."

(كتاب الإجارات ج : 15 ص : 74 ط : دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404102153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں