بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف فرض نماز ادا كرنا باقی وتر اور سنت مؤکدہ کو ترک کرنے كا كيا حكم ہے؟


سوال

میں طب کا طالب علم ہوں، کالج میں پڑھتا ہوں ،شروع سے قرآن پر زیادہ توجہ نہیں دی، اب آ کر احساس ہوا، تو میں اس کو سمجھنا چاہتا ہوں، تو اس کے لیے کافی وقت درکار ہوتا  ہے، اور کالج کے کام بھی پورے کرنے ہوتے ہیں اور میں نے حفظ بھی شروع کیا ہے، مجھے یہ پوچھنا تھا کہ اگر میں وقت کم ہونے کی وجہ سے صرف فرض نماز ادا کروں تو کیا حکم ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ صرف فرض نماز پر اکتفا کرنا اور واجب اور سنتِ مؤکدہ کو چھوڑ دینا درست نہیں۔ فرض نماز تو فرض ہے، اور وتر کی نماز واجب ہے، ان دونوں کو چھوڑنا تو کبیرہ گناہ ہے، اگر وقت پر نہیں پڑھی تو بعد میں قضا پڑھنا لازم ہے، ان کا مستقل تارک فاسق ہے۔  سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک بھی جائز نہیں ہے،  جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے  یہاں درجات سے محروم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا اندیشہ ہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو  یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گا،لہذا مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل کا صرف فرض نماز پڑھنا  اوروتر اور سنتِ مؤکدہ  ترک کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ فرض نماز کے ساتھ وتر اور سنت مؤکدہ کے پڑھنے کا اہتمام کرنا بھی لازم ہے ،باقی سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل میں پڑھنے اور  نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اگر کوئی پڑھے گا تو اسے ثواب ملے گا اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، تاہم انہیں بالکل نہ پڑھنے کی عادت بنالینا بھی مناسب نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسن) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرها لايخرج عنه بتسليمتين، وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان.

(قوله: وسن مؤكدًا) أي استنانًا مؤكدًا؛ بمعنى أنه طلب طلبًا مؤكدًا زيادةً على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبةً من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر، كما في شرحه"

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنفل، ج:2، ص:13/12 ط،سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"ترك السنن، إن رآها حقًّا أثم، وإلا كفر".

         (کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنفل، ج:2، ص:21 ط،سعید)

المحيط البرهاني  میں ہے :

"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي «النوازل»: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها". 

(کتاب الصلاۃ، الفصل الحادی والعشرون فی التطوع قبل الفرض، ج:1، ص:446، ط،دارالکتب العلمیه)

         کفایت المفتی میں  ہے:

’’سننِ مؤکدہ  کا تارک علی الدوام گناہ گار  اور تارک  علی الاستخفاف کافر ہے،  اور اگر ترک  احیاناً  یا ضرورۃً یا کسی عذر سے ہوجائے تو جائز ہے‘‘

(سنت مؤكده كے تارك كا حكم ،ج:3،ص:319،ط،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں