اگر نماز کےلیےکھڑے ہوتے ہوئےنماز ایسے ادا کی جا رہی ہو کہ قبلہ کی سمت درست نہ ہو تو کیا نماز درست ہو جائے گی یا نہیں؟ یا دوبارہ پڑھنی پڑے گی؟ کیوں کہ گھر میں نماز مغرب ادا کی گئی، اور صاحب خانہ سے قبلہ کی صحیح سمت معلوم نہیں کی، فرض نماز کی ادائیگی کے بعد صاحب خانہ نے آگاہ کیا کہ مصلٰی یعنی جائے نماز قبلہ رُخ سے کچھ ہٹا ہوا ہے، لیکن فرض کے بعد سنتیں بھی اسی قبلہ رخ درست نہ ہونے پر ادا کر لی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ نماز مغرب جس جگہ ادا کی گئی تھی، اس جگہ سامنے کچن میں بھانجے کی اہلیہ کچھ کام کچن سے متعلق انجام دے رہی تھی، اور نماز کی ادائیگی کچن (باورچی خانہ) کے سامنے کی گئی تھی، مذکورہ بالا نماز کی ادائیگی سالےصاحب نے بہنوئی کے گھر پر کی تھی، نامحرم کے کچن میں سامنے موجود ہونے کے بارے میں سالےصاحب نے بہنوئی کو خفا ہو کر جواب دیا کہ اس طرح تو حرم میں بھی نماز نہیں ہو گی؛کیوں کہ کچھ خواتین مرد نمازیوں کے قریب نماز ادا کرتی ہیں، مردانہ صف سے متصل نماز میں شامل ہو کر یا مردوں کے صف کے بالکل پیچھے بغیر فاصلے کے صف بنا کر نماز ادا کرتی ہیں، جب کہ حرم شریف میں خواتین کی نماز کے لیے احاطہ بنایا گیا ہے، اور کچھ حصےخواتین کی نماز کے لیے بغیر احاطہ کے علیحدہ مخصوص کئے گیے ہیں، اس کے علاوہ مسجد نبوی میں خواتین کی نماز کی ادائیگی کی جگہ اور آمد رفت مسجد کے لئے مردوں سے بالکل علیحدہ کی گئی ہے۔
سوال کا مقصد دو گھروں میں ناراضگی ختم کرنا ہے،کیوں کہ سالے صاحب نے بہن اوربہنوی کے گھر سے جاتے ہوئے کہاتھاکہ میں اب یہاں نہیں آؤں گا، اور انہوں نے ناراض ہو کر آنا بند کر دیا ہے، کیوں کہ سالے صاحب کو قبلہ کی سمت درست نہ ہونے کے بارے میں آگاہ کرنا، اور کچن کے سامنے نماز کی ادائیگی کے وقت کچن میں بھانجے کی اہلیہ کے سامنے ہونے کے بارے میں آگاہ کرنا سالےصاحب کو ناگوار گزرا تھا۔
(1)واضح رہے کہ قبلہ میں تھوڑاساانحراف(یعنی بیت اللہ سےپینتالیس درجہ تک شمالاًیاجنوباً)نمازکےلیےمفسدنہیں ہے،اس سےزیادہ ہوتومفسدہے،لہذاصورت مسئولہ میں جب نمازکےدوران قبلہ سےمعمولی انحراف تھاجو45ڈگری سےکم تھاتونمازاداہوگئی اسے دوبارہ لوٹانےکی ضرورت نہیں ہے،ہاں اگر قبلہ سے 45 ڈگری سے زیادہ انحراف تھا تو معلوم ہونے کے بعد نماز لوٹانے کی ضرورت ہو گی۔
(2)اورجہاں تک یہ بات ہے کہ جس طرف نمازاداکی جارہی تھی،اس کےبا لکل سامنے بھانجےکی اہلیہ کچن میں کام کررہی تھی تواس سےبھی نمازفاسدنہیں ہوئی،اس لئے کہ عورت کانمازی کےآگےسےگزرنانمازکوفاسدنہیں کرتا،لہذااس بنیادپرسالےصاحب کابہن،بہنوئی سےناراض ہونااورگھرآناجانابندکردیناشرعاًدرست نہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز لأحد أداء فريضة ولا نافلة ولا سجدة تلاوة ولا صلاة جنازة إلا متوجها إلى القبلة۔۔۔ومن كان خارجا عن مكة فقبلته جهة الكعبةوهو قول عامة المشايخ هو الصحيح هكذا في التبيين."
(كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط القبلة، الفصل الثالث في استقبال القبلة، ج:1، ص:63، ط:دارالفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وإن كان نائيا عن الكعبة غائبا عنها يجب عليه التوجه إلى جهتها، وهي المحاريب المنصوبة بالإمارات الدالة عليها لا إلى عينها، وتعتبر الجهة دون العين.كذا ذكر الكرخي والرازي، وهو قول عامة مشايخنا بما وراء النهر."
(كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة، ج:1، ص:118، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی مفتی محمودیہ میں ہے:
”جواب:معمولی فرق سےنمازخراب نہیں ہوگی،البتہ اگربجائےمغرب کےشمال یاجنوب کارخ ہوجائےتونمازنہیں ہوگی۔“
(فتاوی مفتی محمودیہ، ج:5، ص:536، ط:فاروقیہ)
الدرالمختارمیں ہے:
"(ولا يفسدها نظره إلى مكتوب وفهمه) ولو مستفهما وإن كره(ومرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقا) ولو امرأة أو كلبا،
(قوله ولو امرأة أو كلبا) بيان للإطلاق، وأشار به إلى الرد على الظاهرية بقولهم: يقطع الصلاة مرور المرأة والكلب والحمار. وعلى أحمد في الكلب الأسود وإلى أن ما روي في ذلك منسوخ كما حققه في الحلية."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:534، ط:سعيد)
فتاوی دارالعلوم دیوبندمیں ہے:
”جواب:نمازی کےسامنےسےکتایاکوئی جانوریا عورت اگرنکل جاوےتونمازاس کی فاسدنہ ہوگی،شامی میں حلیہ سے منقول ہے کہ جوکچھ اس بارہ میں حدیث شریف میں آیاہےوہ منسوخ یامؤل ہے،بہرحال اعادہ اس نمازکاواجب نہیں ہے۔“
(فتاوی دارالعلوم دیوبند، ج:4، ص:59/ 60، ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101381
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن