بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1446ھ 04 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

سمت قبلہ سے 24 ڈگری منحراف مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 ہمارا علاقہ چاٹگام کا قبلہ 379 ڈگری ہے، لیکن مسجد کا قبلہ 355 پر ہے، کیا اس کو صحیح کرنا ضروری ہے یا نماز ہوجائےگی؟ مزید یہ بتائیں کتنی ڈگریوں تک فرق ہونے سے نماز ہوجاتی ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ مسجد کا قبلہ علاقہ چاٹگام  کے قبلہ سے   24ڈگری تک منحرف ہے،  تو   اس  درجہ  انحراف سے   استقبال ِ کعبہ میں خلل نہیں پڑتا ؛کیوں کہ مکہ مکرمہ سے  باہر کی مساجد میں 45ڈگری  تک انحراف کی   گنجائش ہے؛  لہذا مذکورہ مسجد میں نماز  درست ہے، استقبالِ قبلہ  کے اس معمولی  انحراف   سے نماز  میں خلل نہیں آئےگا،البتہ جب نمازیوں کو انحراف کا علم ہوگیا ہے تو پھر انحراف کے ساتھ نماز نہیں پڑھنی چاہیے، صفیں عین قبلہ کے مطابق بچھانی ضروری ہے،نیزاگرتعمیرکی گنجائش ہوتومسجدکی تعمیرعین قبلہ کی سمت درست کی جائے۔

 حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اس مسئلہ کے متعلق مذہبِ مختار حنفیہ کا یہ ہے: کہ جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو اس کے لئے عینِ کعبہ کا استقبال فرض ہے اور جو اس سے غائب ہو اس کے ذمہ جہتِ کعبہ کا استقبال فرض ہے، عینِ کعبہ کا نہیں ۔۔۔ پھر جہتِ قبلہ کے معنی یہ ہے کہ ایک خط جو کعبہ پر گزرتا ہو جنوب و شمال پر منتہی ہوجاوے اور نمازی کے وسط جبہہ سے ایک خط ِ مستقیم نکل کر اس سے پہلے خط سے اس طرح  تقاطع کرے  کہ اس موقع  ِ تقاطع پر دو  زوایہ  قائمہ  پیدا ہوجاویں، وہ قبلہ مستقیم ہے اور اگر نمازی اتنا منحرف ہو کہ وسطِ جبہہ سے نکلنے والا خط  تقاطع کرکے  زوایہ قائمہ پیدا نہ کرے   بلکہ حادہ یا منفرجہ پیدا کرے ، لیکن وسطِ جبہہ کو چھوڑ کر پیشانی  کے اطراف سے نکلنے والا خط زوایہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف قلیل ہے، اس سے نماز صحیح ہوجاوے گی۔ اور اگر پیشانی کی کسی طرف سے بھی  ایسا خط نہ نکل سکے ، جو خط ِ مذکورہ پر زاویہ قائمہ پیدا کردے تو  وہ انحراف ِکثیر ہے، اس سے نماز  نہیں ہوگی۔ اور علمائے ہیئت وریاضی نے انحراف ِ قلیل وکثیر کی تعیین اس طرح کی ہے کہ پنتالیس درجہ تک انحراف  ہو تو قلیل ہے، اس سے زائد ہو تو کثیر، مفسدِ صلاةہے"۔

(جواہر الفقہ: کتاب الصلاة، سمت ِ قبلہ ج : 2 ص :356ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فتاوی شامی میں ہے:

"فاعلم: أولا أن السطح في اصطلاح علماء الهندسة ما له طول وعرض لا عمق، والزاوية القائمة هي إحدى الزاويتين المتساويتين الحادثتين عن جنبي خط مستقيم قام على خط مستقيم هكذا قائمة قائمة، وكلتاهما قائمتان، ويسمى الخط القائم على الآخر عمودًا، فإن لم تتساويا فما كانت أصغر من القائمة تسمى زاوية حادّة، وما كانت أكبر تسمى زاوية منفرجة هكذا حادة منفرجة. ثم اعلم: أنه ذكر في المعراج عن شيخه أن جهة الكعبة هي الجانب الذي إذا توجه إليه الإنسان يكون مسامتا للكعبة أو هوائها تحقيقًا أو تقريبًا، ومعنى التحقيق: أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه على زاوية قائمة إلى الأفق يكون مارّا على الكعبة أو هوائها.ومعنى التقريب: أن يكون منحرفًا عنها أو عن هوائها بما لا تزول به المقابلة بالكلية، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتًا لها أو لهوائها. وبيانه أن المقابلة في مسافة قريبة تزول بانتقال قليل من اليمين أو الشمال مناسب لها، وفي البعيدة لا تزول إلا بانتقال كثير مناسب لها فإنه لو قابل إنسان آخر في مسافة ذراع مثلا تزول تلك المقابلة بانتقال أحدهما يمينًا بذراع، وإذا وقعت بقدر ميل أو فرسخ لا تزول إلا بمائة ذراع أو نحوها، ولما بعدت مكة عن ديارنا بعدًا مفرطا تتحقق المقابلة إليها في مواضع كثيرة في مسافة بعيدة، فلو فرضنا خطا من تلقاء وجه مستقبل الكعبة على التحقيق في هذه البلاد ثم فرضنا خطا آخر يقطعه على زاويتين قائمتين من جانب يمين المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة والتوجه بالانتقال إلى اليمين والشمال على ذلك الخط بفراسخ كثيرة، فلذا وضع العلماء القبلة في بلاد قريبة على سمت واحد اهـ ونقله في الفتح والبحر وغيرهما وشروح المنية وغيرها، وذكره ابن الهمام في زاد الفقير. وعبارة الدرر هكذا: وجهتها أن يصل الخط الخارج من جبين المصلي إلى الخط المارّ بالكعبة على استقامة بحيث يحصل قائمتان. أو نقول: هو أن تقع الكعبة فيما بين خطين يلتقيان في الدماغ فيخرجان إلى العينين كساقي مثلث، كذا قال النحرير التفتازاني في شرح الكشاف، فيعلم منه أنه لو انحرف عن العين انحرافًا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ كلام الدرر، وقوله في الدرر: "على استقامة" متعلق بقوله يصل لأنه لو وصل إليه معوجًا لم تحصل قائمتان بل تكون إحداهما حادة، والأخرى منفرجة كما بينا."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مبحث استقبال القبلة ج : 1 ص : 428 ط : سعيد)

محدث العصر حضرت  مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"التاسعة: أنه يجوز تحمل الانحراف اليسير في المحاريب بأن لاتتبدل الجهة بالكلية وتبقى مسامتة جهة الكعبة."

(بغية الأريب في مسائل القبلة والمحاريب:الفصل الرابع في أنه هل يجب تعيين القبلة بالأدلة.. (ص: 68)،ط. مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي) 

وفيہأيضًا:

"فيالفصل الخامس في: أنه يجوز للغائب عن الكعبة أن يصلي منحرفًا عن الجهة المتعينة(ص: 91):

"فالمحقق فيه عندنا على ما أدى إليه نظري القاصر: أن الانحراف اليسير في التيامن والتياسر مما لايمنع صحة الاقتداء."

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404101482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں