بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سم پر لون لینے کی صورت میں موبائل کمپنی کا بیلنس سے کٹوتی کا حکم


سوال

 کسی بھی سم پر جو لون لیتے ہیں اور جب وہ لون بیلنس کی صورت میں واپس کیا جاتا ہے، تو اس پر 34 روپیہ ٹیکس کی صورت میں کاٹ لیا جاتا ہے، کیا وہ لون لینا شریعت میں جائز ہے؟ سود میں تو نہیں آتا؟ اور اگر سود میں آتا ہے تو کبھی ایمرجنسی میں لینا پڑ جائے تو اس لحاظ سے کوئی گنجائش موجود ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ موبائل کمپنی اگر  سم میں ایڈوانس بیلنس حاصل کرنے کی صورت میں  کچھ رقم اضافی لیتی ہے، اگر یہ زائد رقم محض خدمت مہیا کرنے کے عوض وصول کرتی ہے (یعنی سروس چارجز کی مد میں زائد رقم لیتی ہے) تو موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس لینا جائز ہے۔

بیلنس ختم ہونے کے بعد بعض موبائل کمپنیاں جو مسیج بھیجتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی ایڈوانس کی سہولت دے کر  اس پر جو کچھ رقم کاٹتی ہے وہ سروس چارجز کی مد میں کاٹتی ہے، لہذا ایسی موبائل کمپنیوں سے ایڈوانس بیلنس کی سہولت حاصل کرنا جائز ہے، تاہم اگر کوئی شخص  احتیاط کے درجہ میں اس سے بچتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

اور اگر کمپنی بطورِ قرض دے کر زائد رقم وصول کرے تو پھر لون لینا ناجائز ہوگا۔

الہدایۃ شرح البدایۃ میں ہے:

"الإجارة عقد على المنافع بعوض لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع."

(كتاب الإجارة، ج:3، ص:231، ط:المكتبة الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن."

(مطلب كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، ج:5، ص:166،ىط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144202201270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں