بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرعہ کے ذریعے مال بیچنا


سوال

کیا فرماتے  ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے ایک چیز تین سو روپے میں خریدی،  فروخت کرنے کے لیے اس نے پچاس قرعے بنائے اور دس روپے کی قیمت پر اس نے وہ قرعے  پچاس لوگوں کو ان کے نام لکھ کر بیچ دیے، جس کی وجہ سے اس کو پانچ سو روپے ملیں گے، تین سو اس چیز کی قیمت ہوجائے گی بقیہ دوسو کا اس کو فائدہ ہو جائے گا، اب جس کسی کا قرعہ اٹھے گا وہ چیز اس کی ہوجائے گی، باقی لوگ محروم ہوں گے اور  زید  یہ بھی چاہتا ہے کہ محرومین کا نقصان بھی نہ ہو تو  وہ بجائے دس روپے کے بیس روپے میں قرعہ فروخت کرے تو اس صورت میں اس کو  پچاس سے ایک ہزار روپے کا فائدہ ہوگا، اب یہ جو پانچ سو روپے کا زائد نفع ہوا ہے  وہ ان پچاس لوگوں کو ان کی قرعہ خریدنے کی بیس روپے کی رقم واپس کردے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟  وجہ جواز بھی بتلادیں مدلل، اور اگر جائز نہیں تو وجہ عدمِ جواز بھی مدلل بتلادیں یا اور کوئی شکل جواز کی نکل سکتی ہو تو وہ بھی بتلادیں !

جواب

صورتِ مسئولہ میں  زید کا  قرعہ اندازی کی بنیاد پر کسی کو وہ چیز 20 کی بیچ دینا اور باقی کو محروم رکھنا یا کچھ عوض دینا جائز نہیں ہے، یہ جوے کی صورت ہے۔ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ 300 والی چیز کو مارکیٹ میں گاہک کو بیچے، قرعہ کی بنیاد پر نہ بیچے، اس  میں خواہ  600  کی بھی بیچے تو بھی جائز ہے۔

ارشاد بای تعالیٰ ہے:

{یا أیُّهَا الَّذِیْنَ آمنُوا انَّمَا الخمرُ وَالمَیْسِرُ والأنصابُ والأزلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} [مائدہ:90]

ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200843

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں