بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیلابی ریلے میں پکڑے جانے والے سامان کا شرعی حکم


سوال

1۔ ہمارے علاقے میں سیلاب آیا تھا جس میں سوات  کی طرف سے سیلاب کی وجہ سےبہت زیادہ قیمتی لکڑیاں اور درخت  آئے تھے، اور ہمارے علاقے(پشاور و چارسدہ) کے کھیتوں میں پانی سے رہ گئے تو  ہر کھیت کے مالک نے اس پرقبضہ کرکے فروخت کیا،تو سوال یہ ہے کیا ان کھیتوں والے کے لیے ان لکڑیوں وغیرہ کافروخت کرنا جائز ہے ؟کیایہ قیمتی درخت لقطہ کے حکم میں   ہیں؟

2۔کیا غریب آدمی  ان کو پکڑ کر استعمال کرسکتا ہے؟

3-اگر لقطہ کے حکم میں  ہیں تو   ان درختوں کا مالک اگر معلوم نہ ہو تو   کس کے حوالے کیے جائیں گے؟ اور اس کے ساتھ  ایسی چھوٹی چھوٹی  لکڑیاں  تھیں جو قیمتی  نہ  تھیں، صرف ایندھن کے طور پر استعمال  کی جاسکتی ہیں، کیا ان کو پکڑ کر بطور ایندھن استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں  سیلابی ریلے میں پکڑا جانے والا سامان شرعًا لقطہ کے حکم میں ہے؛ لہذا ان میں سے جو اشیاء:

۱) ایسی معمولی ہوں جن کے بارے میں اس بات کا علم ہو کہ مالک ان کو تلاش نہیں کرے گا، ان چیزوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

۲) ایسی قیمتی ہوں  جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ مالک ان کو تلاش کرنے کی فکر کرے گا، اُن اشیاء کی تشہیر کی جائے۔ پھر مالک کے آنے کی صورت میں چیز اس کو حوالہ کی جائے  اور مالک کے نہ آنے کی صورت میں  جب اس بات کا غالب گمان ہوجائے کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد مالک اب اس کی تلاش نہیں کرے گا، اس سامان کو صدقہ کر دے اور اگر سامان کو اٹھانےو الا خود بھی حاجت مند (مستحق زکوۃ) ہو تو خود استعمال کرنے کی گنجائش بھی ہے، البتہ مالک جب سامان اٹھانے والے تک پہنچ جاتا ہے اور کیے گئے صدقہ کو باقی رکھتا ہے تو صدقہ اپنی جگہ باقی رہے گا اور اس کو ثواب مل جائے گا۔ لیکن اگر مالک لقطہ کا سامان طلب کرتا ہے اور لقطہ کا سامان باقی ہے تو پھر مالک لقطہ کے سامان  کا مستحق ہوگا اور اگر لقطہ کا سامان ہلاک ہوگیا ہے تو پھر اختیار ہوگا کہ اٹھانے والے کو ضامن بنائے یا فقیر (جس کو صدقہ کیا گیا ہے) کو ضامن بنائے۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع علىالملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."

(کتاب اللقطه،٢٨٩/٢،دار الفکر)

فیہ ایضا :

"ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها."

(کتاب اللقطه،٢٨٩/٢،دار الفکر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144411100601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں